ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے

ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے
چراغوں میں نیا پن آ رہا ہے


جمال یار تیرے جھانکنے سے
کنویں سے پانی روشن آ رہا ہے


میں گلیوں میں نکلنا چاہتا ہوں
مرے رستے میں آنگن آ رہا ہے


مجھے شہتوت کی خواہش بہت تھی
مگر مجھ پر تو جامن آ رہا ہے


میاں میں اپنی جانب آ رہا ہوں
خبر کر دو کہ دشمن آ رہا ہے


مجھے خیرات بانٹی جا رہی ہے
مرے ہاتھوں میں برتن آ رہا ہے


گلے میں ہار آنا چاہیے تھا
گلے میں طوق گردن آ رہا ہے