حوصلے کی کمی سے ڈرتا ہوں
حوصلے کی کمی سے ڈرتا ہوں
دور کی روشنی سے ڈرتا ہوں
دیکھ کر بستیوں کی ویرانی
اب تو ہر آدمی سے ڈرتا ہوں
عقل تاروں کو چھو کے آتی ہے
اور میں چاندنی سے ڈرتا ہوں
پہلے ڈرتا تھا تیرگی سے میں
اور اب روشنی سے ڈرتا ہوں
میری بے چارگی تو یہ بھی ہے
آپ کی دوستی سے ڈرتا ہوں
یہ بھی اک پھانس بن نہ جائے کہیں
غم کی آسودگی سے ڈرتا ہوں
تیری زلفوں کی چھاؤں میں رہ کر
آنے والی خوشی سے ڈرتا ہوں
تم تو ترک وفا بھی کر لو گے
اور میں اس گھڑی سے ڈرتا ہوں
بے غرض کون ہے کہ اے شوکتؔ
میں یہ کہہ دوں اسی سے ڈرتا ہوں