ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت

ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت
کافی ہے مرے نالے کو بلبل کی اشارت


فتویٰ طلب اے یار نہ قاضی سے کروں میں
توبہ شکنی کو ہے مری مل کی اشارت


مل بیٹھ میری آنکھوں میں ہے ساعت نیک آج
یہ چشم ترازو ہیں ترے تل کی اشارت


ہے باعث جمعیت دل ایک جہاں کی
اے شوخ پریشانیٔ کاکل کی اشارت


تقویٰ کے نہیں بار سے قد خم ترا اے شیخ
اک خلق میں مشہور ہے اس پل کی اشارت


یاد آئے تری زلف نہ مجھ کو جو چمن میں
دے تاب مرے دل کو نہ سنبل کی اشارت


عشاق کو تجھ چشم کے حاجت نہیں مے کی
بے ہوش کرے سوداؔ کو قلقل کی اشارت