حسرت موہانی کا کاروبار عشق

داغؔ اورحسرتؔ کے عشق کا فرق زیادہ تر محبوب کے سلسلے میں سامنے آتا ہے۔ داغؔ کا محبوب طوائف ہے لہٰذا محبت کی ساری داستان ہی تصنع آمیز ہے۔ یہ تصنع محبوب کے رویے ہی سے نہیں خودعاشق کے رویے سے بھی مترشح ہے کیونکہ طوائف کی طرح طوائف کے عاشق کی محبت بھی چھیڑچھاڑ، رندی اور فقرہ بازی ہی سے عبارت ہوتی ہے۔


دوسری طرف حسرت کا محبوب متوسط طبقے کی وہ لڑکی ہے جو صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں، یعنی جو محبت کرتی تو ہے لیکن کھلے بندوں اس کا اظہار اس لیے نہیں کرتی کہ ان پرانی قدروں کے احترام نے اس کی آنکھوں سے حیا کو رخصت نہیں کیا۔ دوسری طرف عاشق بھی ’’باحیا‘‘ ہے اور اگرچہ خوابوں میں وہ بہت سے قلعے سر کرلیتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں محبوب کو سامنے پاکر پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے۔ خودحسرتؔ کو عاشق کے اس منفعل رویے کا احساس تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس کے شوق کی بلندی اور ہمتوں کی پستی کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ حسرتؔ کے اس وضع کے اشعار کہ،


کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا


دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی


تاثیر برق حسن جو ان کے سخن میں تھی
اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں تھی


غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاؤں
میری ہمتوں کی پستی میرے شوق کی بلندی


کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
ان سے مل کر بھی نہ اظہار تمنا کرتا


عاشق کی ناتجربہ کاری، شرمیلے پن اورانفعالیت ہی کو سامنے لاتے ہیں۔ گویا جہاں ایک طرف حسرت ؔ کا محبوب اردو غزل کے روایتی محبوب کی بے حجابی، بیباکی اور تصنع آمیز حرکات سے محفوظ ہے، وہاں دوسری طرف خودعاشق بھی طوائف کے کوٹھے پر جانے والے اس عیاش نواب سے بالکل مختلف ہے جس کی تصویر داغؔ کے اشعار میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔ حسرتؔ کے ہاں طوائف کا کوٹھا نہیں بلکہ ایک متوسط درجے کے گھر کا کوٹھا ابھرا ہے جہاں اس کی محبوبہ ننگے پاؤں اسے بلانے کے لیے جاتی ہے اورپھر،


تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہوجانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے


کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے


غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے


دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے


شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے


یہ محبت ایک شریف گھرانے میں پروان چڑھنے والی وہ محبت ہے جو بالآخر ازدواجی محبت میں ڈھل جاتی ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے لکھا ہے کہ ’’حسرت نے اپنی عشق بازی کے ساتھ پارسائی کی وضع کونبھایا لیکن اس کے ساتھ کہیں بھی جذبے کی اصلیت میں جوشعر کی جان اور ایمان ہے، کوتاہی نہیں آنے دی۔‘‘ مگر میرے خیال میں حسرتؔ کے عشق کو ’’پارسائی‘‘ سے ملوث کرنا ٹھیک نہیں۔ خود ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے پارسائی کی بات اس لیے کی کہ ان کے سامنے حسرتؔ کی پوری زندگی تھی جو ان کی پارسائی اورپرہیزگاری کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھی۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ ’’حسرتؔ کی زندگی کوئی چھپی ڈھکی نہیں جسے دنیا نہ جانتی ہو۔ ان کی پرہیزگاری پر ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘


حقیقت یہ ہے کہ حسرتؔ کے عشق کو پارسائی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ پارسائی اورمحبت (جنسی محبت) کا ملاپ ہی ناممکن ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حسرتؔ کی شخصیت کے دوروپ تھے۔ ایک دنیاداری کا روپ اوراس روپ کے احترام میں انہوں نے ایک وزنی عمامہ اور بھاری قبازیب تن کر رکھی تھی اور پارسائی اورپرہیزگاری کا پیرہن اوڑھ لیا تھا مگر بباطن وہ ایک حساس اور زندہ انسان تھے اورجذبات کے جواربھاٹے کی زد پر تھے۔ یہ ان کا دوسرا روپ تھا۔ چنانچہ ان کے اشعار میں اصل جذبہ ایک زیریں لہر کی طرح توسدا موجود رہتا تھا مگرحسرت کی شخصیت کا رکھ رکھاؤ اور مہذب انداز اس میں عامیانہ پن پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری عشق کے جملہ لوازم سے عبارت ہونے کے باوجود کہیں بھی فحاشی سے ملوث نہیں ہونے پاتی۔ اس بات کو زہد واتقا کی کسی مستقل کیفیت کے تابع تصور کرنا یا پارسائی کی وضع قرار دینا نامناسب ہے۔ مثلاً حسرتؔ کے یہ اشعار لیجئے،


اک بار بس گیا جو کہیں ان کی باس میں
خوشبوئے حسن برسوں رہی اس لباس میں


سونگھی تھی جو اک بار وہ خوشبو ئے گریباں
اب تک یہ اسی بوئے گریباں کا نشہ ہے


رونق پیرہن ہوئی خوبئیِ جسمِ نازنیں
اور بھی شوخ ہوگیا رنگ ترے لباس کا


بن جاتی ہے دل میں خلش خار تمنا
جھنکار تیرے پاؤں کے زیورسے نکل کر


ملا کر خاک میں مجھ کو جھکی ہے شرم سے لیکن
اٹھے گی پھر وہ چشم فتنہ کار آہستہ آہستہ


ان اشعار میں محبت کی داستان نہ تو کسی سنے سنائے عشق کی روئداد سے ماخوذ ہے اور نہ اس میں ہوس کاری نے محبت کے لطیف جذبہ کو پس پشت ڈالا ہے۔ گویا ہر جگہ جذبے کی تہذیب کا عمل جاری وساری ہے۔ مگران اشعار میں محبت کا پہلو بلکہ جنسی پہلو اپنی ساری شدت کے ساتھ یقیناً موجود ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ حسرتؔ کی محبوبہ گوشت پوست کی ہستی ہے، تخیل کی پیداوار نہیں اور نہ اس کا اردوغزل کے مثالی محبوب ہی سے کوئی علاقہ ہے۔ چنانچہ اس محبت میں زمین پر ننگے پاؤں چلنے کا انداز جابجا جھلکتا ہے۔ اس میں لامسہ کی سرشاری بھی ہے اور شامہ کی زود حسی بھی۔ مؤخرالذکر پہلو تو کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔


علاوہ ازیں حسرتؔ نے بعض اوقات ازدواجی محبت کے دائرے سے ایک قدم باہر رکھ کر بڑی جرأت سے اپنے عشق کی حقیقی داستان کوبیان بھی کردیا ہے۔ یہ بات جزیرہ قبرص کی خاتون کے بارے میں نیز اٹلی کی حسینہ ثروپاؔ کے بارے میں لکھی گئی غزلوں میں مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کم از کم حسرت کی اس جرأت رندانہ کا ان کی نام نہادپارسائی کے مسلک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حسرتؔ کے وزنی تہذیبی لبادے کے نیچے ایک نہایت گرم اور خون سے لبریز دل چھپا ہوا تھا۔ نتیجتاً ان کی محبت اپنی پوری جنسی شدت کے ساتھ ابلتی تو تھی مگر ہونٹوں تک آتے آتے ایک مہذب پیرایہ اظہار میں ڈھلی جاتی تھی۔ یوں ان کے ہاں وہ خاص لہجہ پیدا ہوجاتا تھا جو اردو شعراء میں مومنؔ کے علاوہ شاید ہی کسی اور کے ہاں ابھرا ہو۔


حسرتؔ کے اس مہذب پیرایہ اظہار میں کچھ تو خود حسرتؔ کی شخصیت کا ہاتھ تھا اور کچھ اس ماحول کا جس میں حسرت کی داستان عشق پروان چڑھی۔ حسرتؔ سے قبل غزل گو شعرا کی محبت طوائف کے ماحول کی پیداوار تھی اوراسی لیے محبت نے زیادہ تربذلہ سنجی اور گل افشانی گفتار نیز خوش کرنے اور خوش ہونے کے ہزاروں پیرایوں میں خود ظاہر کیا تھا۔ پھر اس کی ایک سطح خالص جنسی محبت کے اظہار کے لیے وقف تھی اور ’’چوماچاٹی‘‘ والی اس شاعری کا روپ اختیار کرگئی تھی، جسے میرؔ نے بنظر تحقیر دیکھا تھا مگر حسرت کی محبت کا ماحول ایک متوسط گھرانے کا ماحول تھا جس میں محبوبہ باحیا، باعصمت، شائستہ اور بدنامی سے خوفزدہ تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اسے اپنی معاشرتی اقدار اور خاندانی عزت کا پاس تھا اور وہ کسی ایسی حرکت کی مرتکب ہونا نہ چاہتی تھی جس سے اس کے عزیز واقارب کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا۔


نتیجہ یہ نکلا کہ حسرت کی محبت میں بھی ایک فطری شائستگی ابھر آئی جو بیک وقت محبوبہ اور عاشق کے مہذب پیرایہ اظہار میں منعکس ہوئی بلکہ اکثروبیشتر تویہ محسوس ہوتا ہے کہ حسرت کی محبت کا غالب حصہ ازدواجی زندگی کی محبت ہی سے متعلق ہے۔ اس اعتبار سے بھی حسرت کے عشق کا مزاج روایتی عشق کے مزاج سے یکسر مختلف ہے۔ حسرت کے کاروبار محبت کے اس خاص انداز کی چند جھلکیاں دیکھئے،


دیکھا جو کبھی گرم نظر بزم عدو میں
وہ ڈانٹ گئے مجھ کو برابر سے نکل کر


بزم اغیار میں ہر چند وہ بے گانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دباکر چھوڑا


یا


دن کو ہم ان سے بگڑتے ہیں وہ شب کو ہم سے
رسم پابندیٔ اوقات چلی جاتی ہے


یا


نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگرجب یاد آتے ہیں تواکثر یاد آتے ہیں


یہ اشعار واضح طورپر ازدواجی محبت کے جزر ومد کو پیش کرتے ہیں۔ تاہم حسرت کے اشعار میں شادی سے قبل کے ایام میں پروان چڑھنے والی محبت کے شواہد بھی عام ہیں اور یہ متوسط درجہ زندگی کی ایک شائستہ اور باحیاقسم کی محبت ہے۔


آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال توشرما کے رہ گئے


آہ کہنا وہ ترا پاکے مجھے گرم نظر
ایسی باتوں سے نہ ہوجاؤں میں بدنام کہیں


راہ میں ملئے کبھی مجھ سے تواز راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہوجائیے


بھولی نہیں دل کو تری دزدیدہ نگاہی
پہلو میں ہے کچھ کچھ خلش تیرا بھی تک


تھا حجاب ان کا مری حیرت سے سرگرم کلام
تھی بظاہر خامشی درپردہ خاموشی نہ تھی


تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہوجانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے


غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے


مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ حسرت کے ہاں غالباً پہلی بار کاروبار شوق میں طوائف کے بجائے بنت عم نمودار ہوتی ہے اور یوں محبت شادی سے پہلے کے LOVE AFFAIRسے شروع ہوکر ازدواجی زندگی کی پائدار محبت تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ مگرحسرت کی محبت کا دائرہ بہرحال محدود ہے۔ محدود سے میری مراد محض یہ نہیں کہ حسرت کا عشق کوٹھے پر ننگے پاؤں آنے کے واقعہ سے شروع ہوکر،


اب عشق کا وہ حال، نہ ہے حسن کا وہ رنگ
باقی ہے فقط عہد تمنا کا فسانہ


تک ایک محدوددائرے میں مقید رہا اور حسرت اپنے دل میں اس دائرے سے باہر نکل کر شجر ممنوعہ کے ثمر کو چکھنے کی حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے بلکہ یہ بھی کہ حسرت کی محبت کا دائرہ اس اعتبار سے محدود ہے کہ اس میں چاروں طرف پھیلی ہوئی زندگی اور اس کے مظاہر منعکس نہیں ہوسکے۔ اس کے جواب میں شاید یہ کہا جائے کہ حسرت جذبات کا شاعر ہے، تصورات کا نہیں اورپھر اس کے لیے ڈاکٹر یوسف حسین کی زبان میں یہ دلیل دی جائے کہ ’’تصورات کی شاعری میں اکثر اوقات سپاٹ پن اور بے حسی پیدا ہوجاتی ہے سوائے ایسی صورت کے کہ تصورات کی تہہ میں جذبے کی کارفرمائی موجود ہے مگر میں یہ عرض کروں گا کہ شاعری تو یوں بھی جذبے کی زیریں لہر کی عدم موجودگی میں پیدا نہیں ہوسکتی، اس لیے تصورات کے لیے جذبے کی شرط عائد کرنا بے کار ہے۔


اصل بات یہ ہے کہ جذبات کی شاعری اس مقام سے ذرا دور سے ہی رہتی ہے جو تصورات کی شاعری کا مقام ہے۔ جوجذبہ اپنے بوجھل پن، اپنی کشش ثقل یا یوں کہہ لیجئے کہ اپنے محدود تناظر کو عبور کرکے فطرت کے مظاہر تک اوراس کے بعدپوری کائنات میں پھیل جاتا ہے تو تصورات کی شاعری وجود میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر عارض محبوب پر پھیلی ہوئی حیا کا ذکر مقصود ہو تو حسرت لکھیں گے،


آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارحسن
آیا مرا خیال توشرما کے رہ گئے


مگر حیا کا یہی تصور اگر معاملہ بندی کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک آفاقی رنگ اختیار کرے تو یوسفؔ ظفراسے یوں لکھیں گے،


رنگ شفق میں رنگ حیا مستعار ہے
شاید کہ اس نے شام کا وعدہ وفا کیا


مقصود یہ نہیں کہ ان دو شعروں کا موازنہ کیا جائے۔ مقصود صرف اس بات کو واضح کرنا ہے کہ حسرتؔ کی محبت معاملہ بندی کی حد تک ہے اوراس حد کے اندر حسرتؔ نے جو شاعری کی وہ بے حد خوبصورت اور اثرانگیز ہے۔ مگر وہ تصورات کی شاعری کی طرف راغب نہ ہوسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو حسرتؔ کا مقام میرؔ یا غالبؔ سے کسی طورپر بھی کم نہ ہوتا۔