حسرت کی سیاسی شاعری
حسرت کی زندگی میں عظمت کے اور شاعری میں صداقت کے عناصر اس حد تک نمایاں ہیں کہ ان میں کسی طرح کے ابہام اور پیچیدگی کا ہمیں مطلق احساس نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں شخصیت کی بڑائی اور شاعری کی سچائی اپنے اظہار کی کسی شعوری کوشش کے بغیر بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی زندگی پر ایک ناقابل یقین افسانے کا گمان ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ایک سیدھی سادی، مگر دلچسپ آپ بیتی کا تاثر قائم کرتی ہے۔ ایک بات جو حسرت کی زندگی اور شاعری میں مشترک ہے، وہ ایک طرح کی بے لوثی اور معصومیت ہے۔ ایک عجیب و غریب قناعت پسندی ہے۔ اپنے آپ سے بے پروائی اور استغنا کی ایک رفیع اور جلیل کیفیت ہے۔
حسرت کی زندگی اور شاعری دونوں کو کسی بیرونی سہارے کی، کسی آرائش کی حاجت نہیں۔ حسرت اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ان کا بے نیاز دل ہر دوجہا ں سے غنی نظر آتاہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حسر ت ہمیں زندگی اور شاعری دونوں سطحوں پر توجہ کے مستحق اور اہم دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ اردو شاعروں کی کوئی بھی صف جمائی جائے، اس میں حسرت کی جگہ محفوظ رہےگی۔ ان کی شاعری نہ تو بڑے امکانات کی شاعری تھی، نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسرت اپنے معاصرین پر شعری کمال کے اعتبار سے فوقیت رکھتے تھے۔ پھر بھی حسرت کے عہد میں سب سے پہلے ہماری نظر حسرت پر ہی ٹھہرتی ہے۔ وہ موضوع بحث نہ بنیں جب بھی مرکز توجہ ضرور بنتے ہیں۔ حسرت کے عہد کا تصور حسرت کے بغیر کیا جائے تو ایک عجیب سناٹے کا احساس ہوتا ہے۔
اب جہاں تک حسرت کی سیاسی شاعری کا تعلق ہے، تو اسے ان کی تخلیقی زندگی کے بس ایک اتفاقی واقعہ کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ یہ واقعہ اپنی مجموعی قدر و قیمت کے لحاظ سے نہ تو غیر معمو لی ہے، نہ کسی ایسی سطح کا احساس دلاتا ہے جو دیر تک تجزیے کا بوجھ اٹھا سکے۔ جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ حسرت کی شخصیت میں عظمت کے باوجود گہرائی نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری میں سچائی کے باوجود وسعت نہیں ہے۔ حسرت کی سیاسی شاعری کا مفہوم محض ان کے سوانحی سیاق میں متعین ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حسرت کی سیاسی شاعری ان کی زندگی کا ایک زاویہ ہے اوربس۔ یہ زاویہ حقیقت کی کوئی ایسی تعبیر مہیا نہیں کرتا جس کو حسرت کی زندگی سے الگ کرکے دیکھا جا سکے۔ حسرت کے سیاسی تجربوں کی بنیادیں کیسی مضبوط اور استوار تھیں اور ان تجربوں میں کیسی غیر معمولی شدت اور صداقت تھی، مگران کا بیان کرتے وقت نہ تو حسرت کے سان کی رفتار تیز ہوتی ہے نہ پڑھنے والے کے حواس تک ان کی آنچ پہنچتی ہے۔ اس کا سبب کیا تھا؟
اصل میں سیاسی شاعری تخلیقی اظہار کے ایک نہایت مشکل مرحلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پابلونیرودا کا ذکر کرتے ہوئے مارکیز نے ایک موقع پر کہا تھا، ’’میں نیرودا کو بیسویں صدی کا کسی بھی زبان میں، سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں حتی کہ جب وہ مشکل مقام میں پھنس جاتاتھا۔۔۔ مثلاً اس کی سیاسی، اس کی جنگی شاعری، تب بھی شاعری بذات خود ہمیشہ اول درجے کی رہتی تھی۔ نیرودا ایک قسم کا شاہ میداس تھا، وہ جس چیز کو چھو لیتا تھا شاعری بن جاتی تھی۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ جادوئی لمس ایک ایسی دولت نایاب ہے جس کا سراغ سیاسی واردات کے ترجمانوں میں ہمیں اقبال اور فیض کے علاوہ اپنے کسی بھی شاعر کے یہاں نہیں ملتا۔ لیکن اردو میں سیاسی شاعری کی جو بھی روایت موجود ہے، اس میں مثال کے طور پر کئی شہر آشوب ایسے لکھے گئے اور شبلی یا اکبر سے لےکر ہمارے عہد کے ترقی پسند شعرا تک ایسی متعدد نظمیں کہی گئیں جو اپنی شاعرانہ قدر و قیمت اور اپنی حسیت کے اعتبار سے اہم دکھائی دیتی ہیں۔ ان نظموں میں سیاسی تجربہ ایک ایسی تخلیقی واردات کا حصہ بن گیا ہے جو اپنی دیرپائی کے سبب قیمتی محسوس ہوتا ہے۔
یہ واردات حسی کیفیتوں اور اظہار و بیان کی سطح پر مختلف سمتوں میں اپنے معنی کی توسیع کرتی ہے۔ مثال کے طور پر شبلی کے یہاں فرنگی سیاست کے خلاف برہمی کا احساس ہے اور اس احساس نے ایک گہرے روحانی احتجاج کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح اکبر کے یہاں حقائق کی ہولناکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افسردگی کتنے پردوں سے چھن کر سامنے آتی ہے۔ غصے، ملال اور طنز کی جتنی کیفیتیں ہمیں شہر آشوب کابیان کرنے والوں کے یہاں ملتی ہیں، ان سے اردو میں احتجاجی شاعری کا ایک وسیع منظر یہ بھی ابھرتا ہے۔
حسرت کے سیاسی تصورات بہت منظم نہ سہی، مگر اپنے مقاصدکے لحاظ سے بہت واضح تھے۔ ان میں وہی سچائی تھی جوحسرت کی زندگی میں تھی۔ مگر وہ جو ایک شاعرانہ ہیجان اور جذباتی ابال کا تاثر حسرت کی پوری شاعری پر چھایا ہوا ہے، اس کا سایہ حسرت کی سیاسی شاعری پر بھی پڑا۔ اس تاثر کوکسی بڑے شعوری احتجاج یا کسی نیم فلسفیانہ برہمی اور اداسی کی کوئی ایسی جہت نہیں مل سکی جو حسرت کو ایک نامانوس اور نو دریافت تخلیقی کائنات کا راستہ دکھا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ حسرت اپنی روزمرہ بصیرت اور اپنی عام ہستی کے حدود کو پار کرنے کی طلب سے شاید محروم تھے۔ اور اپنی اس کوتاہی کا خود انہیں بھی احساس تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک ایسا شاعر جس کا نصف سے زیادہ کلام جیل خانے میں کہا گیا، اس کی اپنی سیاسی زندگی کے بنیادی اور حقیقی ارتعاشات بھی اس کی شاعری میں کوئی گہری گونج نہیں پیدا کر سکے۔
وہ قیدوبند کی سختیوں کا ذکر بھی کرتا ہے تو اس طرح گویا کہ ڈائری لکھ رہا ہو۔ کسی بھی سیاسی تجربے کے مرکز پر حسرت پل دو پل سے زیادہ کے لئے ٹھہرتے ہی نہیں۔ ا س سے ان کی سادگی اور اپنے آپ سے بے نیازی کا اظہار تو ہوتا ہے، تجربے کی گرفت اور شدت کا نہیں۔ حسرت کا جی لگتا ہے تو صرف اپنی روداد محبت کے بیان میں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں، حسرت کی تقریر کا جو خلاصہ سجاد ظہیر نے روشنائی میں دیاہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حسرت کو اپنے حدود کا علم بھی تھا اور وہ ان سے باہر آنے کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا،
’’جب میں ادیبوں کے سامنے یہ نصب العین پیش کر رہاہوں (قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی، سامراجیوں کی مخالفت، عوام کے دکھ سکھ اوران کی تمناؤں کا اظہار، سوشلزم بلکہ کمیونزم کی تلقین وغیرہ) تو خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتا؟ ظاہر ہے کہ میر ی شاعری میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ ہوس ناکی کی شاعری ہے۔ اس کا مقصد تفنن اور تفریح ہے۔ آ پ کا مقصد اس سے بلند ہونا چاہئے۔ شاعری کے معاملے میں آپ کومیری تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ میں خود اس قسم کے نئے ادب کی تخلیق میں آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘ اس تقریر میں حسرت نے یہ بھی کہا تھا کہ، ’’اب پرانی باتوں سے کام نہیں چلےگا۔‘‘ جبکہ اس واقعے سے کوئی تیس بتیس برس پہلے (علی گڑھ منتھلی۔ جلد۱، شمارہ ۳ مارچ ۱۹۳۱ء) بہت زور دے کر یہ کہہ چکے تھے کہ، ’’وہ زمانہ قریب ہے جبکہ انداز سخن خودبخود بدل جائےگا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اس وقت بھی پرانی شاعری کے بغیر کام نہیں چلےگا۔‘‘
حسرت کا خیال تھا کہ نیا انداز سخن وضع کرنے کے لئے صرف نئی تشبیہیں اور نئے استعارے پیدا کر لینا کافی نہیں۔ ان سب کے لئے ’’پہلے کمال سخن کی ضرورت ہوگی اور وہ بغیر پرانی شاعری کی مدد کے ممکن نہیں۔‘‘ غر ض کہ ایک کشمکش اور ایک تضاد سے حسرت خود کو ہمیشہ دو چار پاتے تھے اور امکان بھر اس مسئلے سے نمٹنے کی انہوں نے کوشش بھی کی۔ لیکن کوشش کا نتیجہ بہت با معنی اس لئے نہیں ہو سکا کہ مزاجاً حسرت ایک شریف النفس اور شرمیلے قصباتی آدمی تھے، ایک خاص طرح کی روایتی وضع اور ایسی عادتوں کے پابند جو انہیں کسی بڑی حسیت کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان کی بصیرت ایک دوراہے پر ٹھنکتی ہے۔ کچھ سوچتی ہے، زیر لب کچھ کہتی ہے، پھر وہ اپنی جانی پہچانی راہ پر لگ جاتے ہیں اور شاعری کے ذریعے ایک عام تہذیبی فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
حسرت کی عشقیہ شاعری میں اپنی معاشرت اور تہذیب سے وابستگی نے حقیقت اور واقعیت کا ایک خاص رنگ پیدا کیا ہے۔ اسی طرح حسرت کی سیاسی شاعری میں اپنے عہدکی قومی زندگی سے مناسبت اور ربط کا احساس ایک طرح کی دردمندی اور خلوص تو پیدا کرتا ہے لیکن اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ بڑی سیاسی شاعری محض بڑے مقاصد کی اطاعت سے وجود میں نہیں آتی۔ بے شک، حسر ت کو خیالوں کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی دلچسپی تھی اور ارضیت کے مظاہر سے تعلق خاطر کے معاملے میں تو حسرت شاید اپنے تمام معاصرین سے آگے تھے۔ مگر کچھ تو اس لئے کہ حسرت نے کوئی درجن بھرگیت اور گنتی کی کچھ نظموں سے قطع نظر اپنا سروکار بیشتر غزل کی صنف سے ہی رکھا اور کچھ اس لئے کہ حسرت کی طبیعت میں ایک فطری بے صبری تھی، جس نے انہیں بڑے مسائل پر جم کر بولنے اوران سے پیدا ہونے والے مسئلوں کوخون میں جذب کرنے کا موقع نہیں دیا۔
قومی شخصیتوں پر ان کی نظمیں کسی بڑے ادراک سے یکسر خالی ہیں۔ قومی سانحوں تک کا ذکر وہ عام طور سے بہت رواداری کے انداز میں کرتے ہیں۔ غزلوں میں سیاسی اشارے حسرت کے یہاں تقریباً اسی پامال طریقے سے ابھرتے ہیں جن کی مثالیں ہمیں مشاعرہ باز قسم کے شعرا کے کلام میں خوب ملتی ہیں۔
وہ باربار سزا جرم عشق پر دیتے
مگر قصور وہی بار بار ہم کرتے
کیا سمجھتا ہے اسیران قفس کو صیاد
دل ہلا دیں جو کبھی درد سے فریاد کریں
محو گل ہیں یہ عنادل کہ چمن میں گویا
خوف گلچیں کا نہیں خطرہ صیاد نہیں
مانا کہ یہ شعر برے نہیں ہیں مگر ان میں کوئی ایسی خوبی بھی نہیں جو انہیں سیاسی شاعری کی بڑی مثال بنا دے۔ انہیں ہم شبلی اور اکبر کی نظموں کے مقابلے میں بھی بہرحال کم تر پاتے ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر جوش، فیض، سردار، مخدوم کی حسیت سے ان کا موازنہ کریں توان کی تنگ دامانی کا احساس اور زیادہ قوی ہو جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ حسرت اپنی حسیت کے تین مرکزی دائروں۔۔۔ عشق، تصوف، سیاست میں سوائے عشق کے، تصوف اور سیاست دونوں میں خود کو پوری طرح منکشف نہیں کر پاتے۔ حسرت کے بعد نمایاں ہونے والے کئی ترقی پسند غزل گو، اس واقعے کے باوجودسیاسی سرگرمی اور تجربے کے میدان میں حسرت سے پیچھے ہیں، روایتی علائم کی مدد سے سیاسی واردات کا بیان کہیں زیادہ طاقت اور اثر کے ساتھ کرتے ہیں۔
حسرت جو اپنے سیاسی اشعارمیں ادراک اور احساس کی اعلیٰ سطحوں تک نہیں پہنچ سکے تو اس کا سبب حسرت کی خام کاری نہیں تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حسرت مزاجاً بڑی عشقیہ شاعری اور بڑی سیاسی اور سماجی شاعری کے لئے موزوں نہیں تھے۔ وہ ایک سچے کھرے عاشق تھے۔ تصوف کے معاملات سے شغف اور بعض برگزیدہ شخصیتوں سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ سیاست میں بھی مخلص اور ایماندار تھے اور اپنے ایقانات کے سلسلے میں نہایت پرجوش اور جذباتی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی تجربہ حسرت کی روح کا آشوب نہیں بنتا۔ ان کے احساسات اور تصورات کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ بس ایک ہلچل پیدا کرتا ہے۔ حسرت کی سادہ لوحی، نشاط پرستی، امید پروری اور ناصبوری انہیں انسانی تجربوں کے سنگین اور سخت مرحلے میں زیادہ ٹھہرنے نہیں دیتی۔
اپنے جذبات سے الگ ہونے کی حسرت کو نہ طلب ہے، نہ عادت، حسرت کے جذبات ہی ان کا اصل شناس نامہ ہیں اور چونکہ ان جذبات کا دائرہ بڑی حد تک مانوس اور متعین ہے اس لئے حسرت ہمیں متوجہ تو کرتے ہیں، ہماری حیرتوں کو جگاتے نہیں۔ حسرت سے ہمارا تقاضا اس سے زیادہ کا تھا کیونکہ حسرت کے پاس سچے تجربوں، جذبوں، خیالوں کا ایک ایسا شاندار ذخیرہ تھا جوان کے ہم عصروں میں کسی اور کے یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اپنے راستے کی سب سے بڑی دیوار خود حسرت بن گئے۔