حسرت کی عشقیہ شاعری ۔ میری نظر میں
حسرتؔ کی شاعری کی قدروقیمت کو پرکھتے وقت ان کے ان اشعار کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے،
شعر در اصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
غالبؔ و مصحفی و میرؔ و نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض
ہے زبانِ لکھنؤ میں رنگِ دہلی کی نمود
تجھ سے حسرت نام روشن شاعری کا ہو گیا
رکھتے ہیں عاشقانِ حسنِ سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض
تو نے حسرت کی عیاں تہذیب رسم عاشقی
تجھ سے پہلے اعتبار شانِ رسوائی نہ تھا
دیارِ عشق میں ماتم بپاہے مرگ حسرت پر
وہ وضع پارسا اس کی وہ عشق پاکباز اس کا
گویا حسرت اپنے اشعار کے سریع التاثیر ہونے، غزل کے استادوں اور اماموں سے فیض یاب ہونے، رنگ دہلی کو ترجیح دیتے ہوئے اور عام طور پر زبان لکھنؤ کی پیروی کرتے ہوئے، دہلوی اور لکھنوی کے خانوں میں مقید نہ ہونے، تہذیب رسم عاشقی عیاں کرنے اور وضع پارسا کے ساتھ عشق پاکباز نبھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ حسرت نے اردو شاعری کے بہت بڑے سرمائے کا مطالعہ کیا تھا اور اپنے بہت سے ہم عصروں سے زیادہ گہرائی سے کیا تھا۔ خود انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے ناسخ کا انتخاب کرنے کے لئے ان کے کلام کا سات دفعہ مطالعہ کیا تھا۔ تذکرۃ الشعرا اور انتخابِ سخن ان کے اس مطالعے کا بین ثبوت ہیں۔ ایک سوآٹھ شعرا کا تذکرہ انہوں نے لکھا، کچھ تذکرے دوسروں سے لکھوائے، پھر گیارہ جلدوں میں انتخاب سخن کے نام سے شعرا کا انتخاب شائع کیا جو ان کے ذوق اور نظر دونوں کی گواہی دیتا ہے۔
انہوں نے اپنے تذکروں اور انتخابات کے ذریعہ سے ہمارے کلاسیکی شعرا اور بہت سے اہم ہم عصر شعرا کی قدر شناسی کا ایک قابل قدر معیار قائم کیا اور حاتم، مصحفی، جرأت کے متعلق ہمارے رویے کو متعین کرنے میں مدد دی۔ شاعری، تصوف اور سیاست ان کی شخصیت کے تین بنیادی پہلو ہیں۔ شاعری ان کا ذخیرۂ شوق ہے۔ چکی کی مشقت میں بھی مشق سخن جاری رہتی ہے۔ مزاج کے اعتبار سے وہ صوفی ہیں۔ وہ ہر جگہ خلوص کی تلاش کرتے ہیں، کفر و اسلام کے ظاہری ڈھانچوں سے چنداں غرض نہیں رکھتے۔ وہ لامذہبیت کو بھی بشرطیکہ اس میں خلو ص ہو، ایک مذہب سمجھتے ہیں۔ شری کرشن کی بزرگی کے بھی قائل ہیں اور پیران طریقت کے فیضان کے بھی۔ شاعری میں ایک رومانی لے ان کے یہاں ملتی ہے مگر در اصل وہ ذہن کے اعتبار سے نوکلاسیکی ہیں۔
سیاست اس بندۂ آزاد کے آئیڈیلزم یا آدرش پرستی کو ظاہر کرتی ہے، جس نے ا نہیں ہمیشہ ہجوم میں تنہا رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوفی ہونے کے باوجود ان کی صوفیانہ شاعری نہ زیادہ بلندی رکھتی ہے نہ گہرائی۔ اسی طرح باغی ہونے کے باجود ان کی باغیانہ شاعری زیادہ تر منظوم بیان ہے۔ لے دے کر ہمارے نزدیک ان کی عشقیہ شاعری اور استادی یعنی فن شاعری کے متعلق ان کے ارشادات کی ہمیت رہ جاتی ہے یا ان کی شخصیت کی کج کلاہی، ان کی مجاہدانہ روش، ان کی قلندرانہ بےنیازی اور ان کی رشیوں کی سی سادگی اور وضع داری کی، جس کا مظہر یہ شعر ہے،
سب سے منھ موڑ کے راضی ہیں تری یاد سے ہم
اس میں اک شانِ فراغت بھی ہے راحت کے سوا
حسرت کے دواوین کا سرمایہ تقریباً چھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ میرؔ کے چھ دیوانوں کا مطالعہ کرنے کے بعدیہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا بہترین سرمایہ پہلے دو دیوانوں میں ہے۔ اگرچہ اچھے اشعار بعد میں بھی ملتے ہیں۔ مگر ان کی تعداد بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی احساس حسرت کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ حسرت کا ۱۹۲۰ء تک کا کلام ان کی شاعری کے شباب کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعد میں اس میں ایک انحطاط محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ حسرت کی عشقیہ شاعری واردات قلبیہ کی شاعری ہے۔ فکری بلندی یا تنوع نہیں رکھتی۔ واردات قلبیہ کی مصوری میں وہ بلاشبہ نہایت کامیاب ہیں خصوصاً احتساسی اسلوب میں۔ پھر ان کے مزاج کو نشاط عشق سے زیادہ مناسبت ہے۔ اس غم کی آنچ سے نہیں جو ہڈیوں تک کو گلادیتی ہے اور جس سے ہم میرؔ کے یہاں آشنا ہوتے ہیں۔ واردات قلبیہ کی اس مصوری میں ان کے یہاں نفسیاتی گہرائی بھی ملتی ہے اور وہ اکثر متضاد کیفیتوں کو ایک شعر میں سمو لیتے ہیں جیسے ان اشعار میں،
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
آہ وہ یاد کہ جس یاد کو ہوکر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
پوشیدہ سکون یاس میں ہے
اِک محشرِ اضطراب خاموش
میری محرومیوں کی حد نہ رہی
تیرے احسان بے شمار ہوئے
اک رنگ التفات بھی اس بے رخی میں تھا
اک سادگی بھی اس نگہ سحر فن میں تھی
دوسری وجہ یہ ہے کہ حسرت کے دور میں مشاعروں کی طرحوں پر شعر کہنے یا اساتذہ کی زمینوں میں طبع آزمائی کرنے کا رواج عام تھا۔ مشاعروں کی ادبی اہمیت مسلم، مگر مشاعروں میں مقبول ہونے والی شاعری میں زبان کی صفائی، قافیے کا منھ سے بولنا، ردیف کا مزا دینا، خیال کا خط مستقیم میں ہونا تاکہ سننے والوں کا ذہن فوراً اسے قبول کر لے، محاورے کی برجستگی، غرض مضمون کی تازگی کے بجائے زبان کے لطف کی زیادہ اہمیت تھی۔ پھر اکثر استادان فن کسی نہ کسی رنگ کی پابندی ضروری سمجھتے تھے۔ فن شاعری کو یقیناً مشاعروں کی وجہ سے فائدہ پہنچا اور بات کہنے کے ڈھنگ ہاتھ آئے مگر شعریت اور انفرادیت، اپنی چنگاری کی پرورش، اپنے من کی موج اور اپنے فکر کی پرواز کو اتنا سازگار ماحول نہ ملا۔
حسرت کے دیوانوں کا مطالعہ کیجئے تو خاصی تعداد ایسی غزلوں کی ملتی ہے جو مشاعروں کی طرحوں پر کہی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں زبان کا ایک بُت بن گیا تھا۔ اس بُت پرستی کے خلاف غالبؔ نے سب سے پہلے بغاوت کی اور بعد میں اقبال نے۔ حسرت نے اقبال کی زبان پر اردوے معلی میں جو اعتراض کیے تھے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسرت کے نزدیک شعریت وہی تھی جو زبان کے ایک خاص سانچے میں جلوہ گر ہو۔ اس آب گینے کی حسرت کو زیادہ پروانہ تھی جو تندئی ی صہبا سے پگھل جاتا ہے اور جس کے ذریعے سے بالآخر شاعر الفاظ پر فتح حاصل کرکے لفظ کو زبان اور کائنات بنا دیتا ہے۔
حسرت غزل کی زبان کے نباض ضرور تھے مگر شاعری صرف غزل میں محدود نہیں ہے۔ حسرت عشقیہ شاعری کی زبان کے آداب سے واقف تھے مگر بڑی شاعری صرف عشقیہ نہیں ہوتی۔ گو عشقیہ شاعری کی اہمیت اور قدرو منزلت مسلم ہے۔ اگر اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ غالبؔ نے کس طرح غزل کو حدیث دلبری کے بجائے صحیفۂ کائنات بنایا اور اقبال نے اسے کس طرح صحیفۂ انسانیت کا درجہ عطا کیا تو اس سے حسرت کی تہذیب رسم عاشقی اور ان کی جوئے نغمہ خواں کی تحقیر نہیں ہوتی، صرف اس کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔
یہ جوئے نغمہ خواں کیا ہے؟ اس کی معنویت کتنی ہے، اس کے نشاط، احتراز، کیفیت، دلنشینی اور تاثیر کے متعلق کیاکہا جا سکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ حسرت کا دائرہ محدود ہے مگر اپنے دائرے میں وہ ہر لحاظ سے کامیاب ہیں۔ حسن کی مصوری، عشق کی واردات، رنگ و نور کی بارش، جذبات کا تلاطم ( اگرچہ یہ جذبات عنفوان شباب کے زیاد ہیں) شوق کی بےتابیاں، نگاہ یار کی حشر سامانیاں، ہجر کی کاہشیں اور وصل کے معاملات، حسرت کے یہاں اس لئے بہار صد گلستاں رکھتے ہیں کہ حسرت سچے عاشق بھی ہیں اور کھرے عاشق بھی۔ اس لحاظ سے وہ میرؔ سے قریب ہیں اور غالبؔ سے الگ۔ غالبؔ سپردگی کے قائل نہیں، میرؔ ہیں اور حسرت بھی۔ مگر میرؔ کی طرح حسرت کی روح زخمی نہیں ہے یہ حسن کے جلووں سے سرشار ہے۔ اس سرشاری میں ان کے سیاسی مسلک کی بلندی اور ان کے صوفیانہ مزاج کی یاعارفانہ ذوق کی چاشنی بھی ہے۔ پھر میرؔ کے یہاں حسرت سے زیادہ تنوع ہے اور غالبؔ کے یہاں میرؔ سے زیادہ رنگا رنگی اور جامعیت۔
حسرت کی عشقیہ شاعری میں مومن کا ترقی یافتہ رنگ ملتا ہے اور اس میں مصحفی کی احتساسی شاعری کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حسرت مصحفی اور مومن سے سب سے زیادہ قریب ہیں مگر مصحفی کی طرح ہر رنگ میں کہنے اور مومن کی سی ناہمواری اور اغلاط سے بڑی حد تک بلند ہیں۔ حسرت کے بہترین اشعار یا تو حسن کی مصوری سے متعلق ہیں یا عشق کی واردات سے یا غالبؔ کی تراکیب کے سہارے سے اشارت اور ادا سے۔ میرے نزدیک حسرت کی غزل کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ غزل کی ریزہ خیالی کے باوجود ان کے یہاں ایک طرح کی وحدت ملتی ہے اور موڈیا کیفیت کی وحدت تو اکثر غزلوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ مسلسل غزلوں اور قطعہ بند اشعار کی تعداد بھی خاصی ہے۔ مخصوص ردیفوں کے ذریعے سے ایک مخصوص فضا کا بھی التزام ہے۔ ان کی چند نمائندہ غزلوں کے مطلعے یہ ہیں،
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
تاثیر برق حسن جو اُن کے سخن میں تھی
اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں تھی
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشؔ گل سے چمن تمام
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
لایاہے دل پر کتنی خرابی
اے یار ترا حسنِ شرابی
توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
زمانِ فصلِ گل آیا نسیم مشکبار آئی
دلوں کو مژدہ ہو پھر جوشِ مستی کی بہار آئی
طلب عادت نہیں اہل رضا کی
یہ لغزش تھی زبانِ مدعا کی
یاد ہیں سارے وہ عیش با فراغت کے مزے
دل ابھی بھولا نہیں آغاز الفت کے مزے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
حسرت کا کوئی دیوان ضخیم نہیں اور آخر کے چند دیوان تو بہت مختصر ہیں۔ پھر بھی ان میں یہ التزام عام طور پر ملتا ہے کہ ہر حرف تہجی میں یا تو ردیف ہو یا غیر مردف غزل۔ یہ ہماری شاعری کی ایسی روش تھی جسے کسی طرح سراہا نہیں جا سکتا۔ یہ اشعار عام طور پر شعریت سے خالی ہوتے ہیں اور یا تو سند کے لئے کام آتے ہیں یا بیت بازی کے لئے، جس کا رواج اب کم ہو گیا ہے۔ حسرت کے یہاں اس کے باوجود ان ردیفوں میں بھی کہیں کہیں بے ساختہ، رواں اور شگفتہ شعر نکل آتے ہیں مگر ان کی یہ استادی فن کی دلیل ہے نہ کہ شاعرانہ کمال کی۔
اوپر میں نے کہا تھا کہ غالبؔ کا اثر حسرت کے یہاں تراکیب کی رعنائی اور رنگینی میں نظر آتا ہے۔ مومن بھی اس معاملے میں شریک غالب ہیں۔ حسرت کی تراکیب میں سادگی ہائے تمنا، صحر کاری رنگ حیا، محشر اضطراب خاموش، آبشار آرزو، خرمی بے خلل، التماسِ بے زباں، راحت حیرت، خمار بےخبری، جنبشِ خفی، عصیاں نظری، تمکین ستم ایجاد، رنج طربگار، خانہ بدوش آرزو، چشم فسوں کار، نازش پنہان تمنا جیسی خیال انگیز اور شگفتہ تراکیب کی وجہ سے جو حسن پیدا ہوا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ان کے بہترین اور یاد رہ جانے والے اشعار وہ ہیں جن میں شوق کا زمزمہ ایسے جوش، ایسے جذبے، ایسی بھرپور نشتریت کے ساتھ بلند ہوا ہے کہ اس میں ایک طرح کی آفاقیت آ گئی ہے۔ غزل کی ایمائیت کو یہاں حسرت نے ایسی حسن کاری سے برتا ہے کہ زندگی کی کئی منزلوں کی رہنمائی ہو جاتی ہے اور حسرت کے اکہرے پن کی طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ یہ شعر دیکھیے،
حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
غمِ زمانہ سے دل کو فراغ باقی ہے
ہنوز ان کی محبت کاداغ باقی ہے
بجا ہیں کوششیں ترک محبت کی مگر حسرت
جو پھر بھی دلنوازی پر وہ چشم سحر کار آئی
دل کچھ اس ڈھب سے لئے اس نے کہ برسوں کوئی
حال سے اپنے خبردار نہ ہونے پایا
تری محفل سے ہم آئے مگر با حال زار آئے
تماشا کامیاب آیا تمنا بے قرار آئی
ہوئیں ناکامیاں، بدنامیاں، رسوائیاں کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے جاناں کی ہوا داری
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلی ہم رہاں سے ہم
پیہم دیا پیالۂ مے برملا دیا
ساقی نے التفات کا دریا بہا دیا
ہے ہجر میں وصال زہے خوبی خیال
بیٹھے ہیں انجمن میں تری انجمن سے دور
رعنائی خیال کو ٹھہرا دیا گناہ
زاہد بھی کس قدر ہے مذاق سخن سے دور
اک خلش ہوئی ہے محسوس رگ جاں کے قریب
آن پہنچے ہیں مگر منزل جاناں کے قریب
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تدبیریں کہیں
عشقیہ شاعری میں رنگِ ہوس بھی ضروری ہے اور حسرت جیسا حسن اور فن کا رمز شناس اس راز سے واقف تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنی شاعری کے فارمولے میں فاسقانہ شاعری کو آمد میں شمار کرکے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کے یہاں یہ رنگ خاص شوخ ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ۱۹۴۴ء کی حیدرآباد کی اردو کانگریس میں عریانی کے خلاف ایک قرار داد کی مخالفت کی تھی اور عریانی کو فحاشی سے ممیز کرتے ہوئے اسے ایک ادبی اسلوب قرار دیا تھا اور ان کی تائید قاضی عبدالغفار نے بھی کی تھی۔ یہ رنگ ہوس میرؔ کے یہاں بھی ہے اور جب جرأت کے یہاں اس کی لے بڑھ جاتی ہے اور معاملہ بندی بن جاتی ہے تو میرؔ اسے چوما چاٹی کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ غالبؔ کے یہاں بھی اس کا رنگ چوکھا ہے مگر یہ راہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔ اس میں استعارے کی وجہ سے ترفع آتا ہے یا تخیل ایسی شمعیں جلاتا ہے جن سے ذہن میں چراغاں ہو جائے اور جسم کی گرمی میں روح کا نغمہ سنائی دے۔
حسرت کی عشقیہ شاعری میں ہوس شوق ہے۔ انہوں نے جسم کی خوشبو، لباس کے رنگ، زلفوں کی آب وتاب کو اس طرح دیکھا ہے کہ الفاظ لو دینے لگتے ہیں اور حسن کی ہر ادا حاصل حیات اور خلاصۂ کائنات معلوم ہونے لگتی ہے۔ حسرت کا ذہن سادہ ہے، ان کا جذبہ خط مستقیم میں ہے۔ ان کے یہاں پہلوداری اور تہہ داری نہیں ایک نفسیاتی گہرائی اور کیفیت کا وفور ہے جس کی عمدگی، تازگی اور شنگرف کاری کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شعر جس طرح ہمارے لئے جنت نگاہ اور فردوس گوش کے ساتھ شامہ اور لامسہ اور ذائقہ کی سیرابی کا باعث ہوتے ہیں ان سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے،
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بہ خود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
محتاج بوے عطر نہ تھا جسم خوب یار
خوشبوے دلبری تھی جو اس پیرہن میں تھی
رنگ تیری شفق جمالی کا
ایک نمونہ ہے بے مثالی کا
لایا ہے دل پر کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی
پیرہن اس کا ہے سادہ رنگیں
یا عکس سے شیشہ گلابی
رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
برق کو ابر کے پردے میں نہاں دیکھا ہے
میں نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
اب ان آنکھوں میں ہے صبحِ شب وصل
نہ شوخی کی نہ گنجائش حیا کی
تاثیر برق حسن جوان کے سخن میں تھی
اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں تھی
دل پُرشوق میں آئی کرم یار کی یاد
کہ چمن میں قدم باد بہاری آیا
گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ مری جان سویرا دیکھو
کیوں کر پہنچ سکےگی مرے حال کی خبر
کتنا ہجوم ناز و ادا ہے تمہارے پاس
عمدگی EXCELLENCE کی کوئی ایک صورت نہیں ہوتی۔ ہاں کئی طرح کی عمدگی ایک شاعر کے یہاں مل سکتی ہے۔ نقاد کا فرض ہے کہ وہ ہر طرح کی عمدگی کو پہچانے۔ ایک سادگی کا حسن ہے، ایک پیچیدگی کا۔ پیچیدگی میں اجزا کی ترتیب و تنظیم، کلیت اور وحدت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ غزل کی عمدگی نظم کی عمدگی سے مختلف ہے اور غزل میں بھی میرؔ، مصحفیؔ، مومنؔ، غالبؔ، داغؔ اور میر کی عمدگی حالیؔ، اکبرؔ اور اقبالؔ کی عمدگی سے ممتاز۔ حسرت کی عمدگی کو عشقیہ شاعری کے معیار سے پرکھا جائےگا۔
حسرت کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو اس کی سادگی اور پرکاری پھر سے عنایت کی اور اس کو صناعی اور بےجا تکلف سے آزاد کیا۔ ان کی عشقیہ شاعری میں میرؔ کی سی عظمت اور غالبؔ کی سی رنگینی نہیں۔ یہ مصحفی اور مومن کی شاعری کی نکھرتی ہوئی اور شائستہ شکل ہے۔ اس میں حسن بیان بھی ہے اور بھرپور ابلاغ بھی یہ جذبے کی ترنگ ہے اور اس جذبے میں معصومیت، ایک والہانہ پن، ایک رقص و مستی ہے۔ یہ اپنے شباب میں کتاب دل کی تفسیر اور خواب جوانی کی تعبیر ہے۔ بعد میں یہ استادی ہو جاتی ہے۔
حسرت بڑے شاعر نہیں ہیں مگر ایک اہم، قابل قدر، پرکشش اور یاد آنے والے شاعر ہیں۔ ایک صحت مند اور جاندار روایت کی حیثیت سے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ غزل کی شاعری ایک طور پر لاشعور کے سمندر میں شعور کی غواصی ہے۔ غواصی میں ہمیشہ موتی ہی ہاتھ نہیں آتے مگر حسرت کو جو موتی ہاتھ آئے ہیں ان کی آب و تاب اس وقت تک ماند نہیں پڑ سکتی جب تک انسان کے پہلو میں دل ہے اور دل حسن کے جلووں پر دھڑکتا ہے۔ حسرت نے ناز عشق کو نور بتایا تھا۔ انہوں نے غلط نہیں کہا ہے۔
ترے حسن کا دور دورا رہےگا
نہ میرا یہ جوش تمنا رہےگا
مگر سالہا سال بعدِ قضا بھی
زمانے میں دونوں کا چرچا رہےگا
میں نے ابھی کہا تھا کہ ایک صحت مند اور جاندار روایت کی حیثیت سے حسرت کی اہمیت مسلم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تجربے کی واقعیت اور بیان میں تخیل کی ہلکی سی رنگ آمیزی اور اس کے لئے مناسب اور موزوں الفاظ کا استعمال اور ایک دبا ہوا جوش اور لہجے میں پراعتمادی اور عام طور پر رواں دواں اور رقصاں بحریں اور خاص خاص ردیفوں سے فضا بندی حسرت کی ایسی خصوصیات ہیں، جنہوں نے غزل میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
حسرت کا ذکر آئےگا تو داغؔ کا بھی خیال آئےگا مگر حسرت کو داغؔ پر یہ فوقیت ہے کہ حسرتؔ، میرؔ سے قریب ہیں اور داغؔ ان سے خاصے دور۔ آج کے دور کی پیچیدگی اور قدروں کی اتھل پتھل میں اور انقلابی تبدیلیوں کے ہجوم میں حسرتؔ کی تہذیب رسم عاشقی، سطحی نظر میں پھیکی پھیکی معلوم ہوتی ہے مگر حسرت نے عشق کے آداب کو زندگی کرنے کا فن بنایا ہے۔ اس لئے حسرت کی جوے نغمہ خواں کے حسن اور اس حسن کی خوش جمالی سے، حسن کاری کے اسرار و رموز پر برابر روشنی پڑتی رہےگی اور حسرت کی چمن بندی وسیع طور پر کاروبار چمن میں برابر ہماری رہنمائی کرتی رہےگی۔