حشر آفریں ہے کوچۂ جانانہ آج کل
حشر آفریں ہے کوچۂ جانانہ آج کل
بہکی ہوئی ہے خوئے محبانہ آج کل
پھر بک رہی ہے جنس وفا کوڑیوں کے مول
پھر ہر وفا شعار ہے بیگانہ آج کل
پھر اٹھ رہی ہیں دشت و بیاباں کی رونقیں
پھر ہر جنوں فروش ہے فرزانہ آج کل
پھر شعلہ کار ہیں چمنستان لالہ زار
پھر بجلیاں ہیں رونق کاشانہ آج کل
پھر ہر جنوں سرشت خرد سے ہے بہرہ ور
پھر کھو گیا تقدس ویرانہ آج کل
ہر دل میں جلوہ ریز ہے پھر جذبۂ خودی
عنقا ہے اعتبار ملوکانہ آج کل
پھر مٹ گئے دلوں سے جنوں کار ولولے
پھر بے نوا ہیں سلمی و ریحانہ آج کل
پھر ساتگیں انڈیل کے ساقی نے رکھ دئے
اٹھتی ہے ہر نگاہ حریصانہ آج کل
افسانہ بن گئی وہ رقابت وہ چشمکیں
دست کرم ہے دست حریصانہ آج کل
مظہرؔ حدیث درد ہے اپنی ہر ایک بات
ہر اشک غم ہے غیرت دردانہ آج کل