حسین تر
کل ایک تو ہوگی اور اک میں
کوئی رقیب رفیق صورت
کوئی رفیق رقیب ساماں
مرے ترے درمیاں نہ ہوگا
ہماری عمر رواں کی شبنم
تری سیہ کاکلوں کی راتوں
میں تار چاندی کے گوندھ دے گی
ترے حسیں عارضوں کے رنگیں
گلاب بیلے کے پھول ہوں گے
شفق کا ہر رنگ غرق ہوگا
لطیف و پر کیف چاندنی میں
تری کتاب رخ جواں پر
کہ جو غزل کی کتاب ہے اب
زمانہ لکھے گا اک کہانی
اور ان گنت جھریوں کے اندر
مری محبت کے سارے بوسے
ہزار لب بن کے ہنس پڑیں گے
ہم اپنی بیتی ہوئی شبوں کی
سلونی پرچھائیوں کو لے کر
ہم اپنے عہد طرب کی شام و
سحر کی رعنائیوں کو لے کر
پرانی یادوں کے جسم عریاں
کے واسطے پیرہن بنیں گے
پھر ایک تو ہوگی اور اک میں
کوئی رقیب رفیق صورت
کو رفیق رقیب ساماں
مرے ترے درمیاں نہ ہوگا
ہوس کی نظروں کو تیرے رخ پر
جمال نو کا گماں نہ ہوگا
فقط مری حسن آزمودہ
نظر یہ تجھ کو بتا سکے گی
کہ تیری پیری کا حسن تیرے
شباب سے بھی حسین تر ہے