حسیں ہے وہی جس کی سیرت حسیں ہے
حسیں ہے وہی جس کی سیرت حسیں ہے
وہ ظاہر ہے کیا جس کا باطن نہیں ہے
ملی استواری اسی کے عمل کو
یقیں جس کا محکم ہے عزم آہنیں ہے
اڑے لاکھ اوج فلک پر یہ انساں
مقام آخر کار زیر زمیں ہے
ترا نام تسکیں دہ قلب مضطر
تری یاد آرام جان حزیں ہے
گیا دور عشق و جوانی ہمارا
مگر داغ حسرت ابھی دل نشیں ہے