حسب فرمائش
میں تجھے پھول کہوں اور کہوں بھنوروں سے
آؤ اس پھول کا رس چوس کے ناچو جھومو
میں تجھے شمع کہوں اور کہوں پروانو
آؤ اس شمع کے ہونٹوں کو خوشی سے چومو
میں تری آنکھ کو تشبیہ دوں میخانے سے
اور خود زہر جدائی کا طلب گار رہوں
غیر سوئے تری زلفوں کی گھنی چھاؤں میں
اور میں چاندنی راتوں میں فقط شعر کہوں
مجھ سے یہ تیرے قصیدے نہ لکھے جائیں گے
مجھ سے تیرے لیے یہ غزلیں نہ کہی جائیں گی
یاد میں تیری میں سلگا نہ سکوں گا آنکھیں
سختیاں درد کی مجھ سے نہ سہی جائیں گی
شہر میں ایسے مصور ہیں جو سکوں کے عوض
حسن میں لیلیٰ و عذرا سے بڑھا دیں گے تجھے
طول دے کر تری زلفوں کو شب غم کی طرح
فن کے اعجاز سے ناگن سی بنا دیں گے تجھے
تجھ کو شہر کی ضرورت ہے محبت کی مجھے
اے حسینہ تری منزل مری منزل میں نہیں
ناچ گھر تیری نگاہوں میں ہیں رقصاں لیکن
اس تعیش کی تمنائیں مرے دل میں نہیں
دیکھ کے غیر کے پہلو میں تجھے رقص کناں
بھیگ جاتی ہے مری آنکھ سرشک غم سے
مجھ کو برسوں کی غلامی کا خیال آتا ہے
جس نے انداز وفا چھین لیا ہے ہم سے
مجھ کو بھنورا نہ سمجھ مجھ کو پتنگا نہ سمجھ
مجھ کو انسان سمجھ میری صداقت سے نہ کھیل
تیری تفریح کا ساماں نہ بنوں گا ہرگز
میری دنیا ہے یہی میری محبت سے نہ کھیل