حریص ہو نہ جہاں میں نہ اپنا جی بھٹکا
حریص ہو نہ جہاں میں نہ اپنا جی بھٹکا
زباں بگڑ گئی گر اس کو آ گیا چٹکا
جو شاہراہ گیا کچھ نہیں ہوا کھٹکا
بھٹک رہا ہے مسافر ہوا جو اوگھٹ کا
قبا پہنتے جو برہم ہوا وہ چست قبا
دیا ہے چین جبیں نے بھی ساتھ سلوٹ کا
یہاں بھی عشوۂ رعنا کھڑی لگاتا ہے
وہ بحر حسن ہوا آشنا جو کروٹ کا
ہماری وضع سے آشفتہ ہو گیا مجنوں
ہمیں جو نجد کے بن میں جنہوں نے دے پٹکا
نظر ہوئی ہے پریشاں حجاب میں ہے وہ رخ
طلسم کھل نہیں سکتا ہے ان کے گھونگھٹ کا
کیا ہے زلف و رخ و چشم نے جو سرگشتہ
نکل کے گھر سے مرا دل تراہے میں بھٹکا
کسے ہے تاب جو دیکھے نگاہ قہر آلود
کوئی ادھر کو چلا اور کوئی ادھر سٹکا
ہمارے اشک مسلسل ذرا نہیں رکتے
یہ گھاٹ خوب رواں ہو رہا ہے پنگھٹ کا
ہمارا رنگ طبیعی ہے صلح کل مشرب
پسند ہم کو نہیں قافیہ بھی جھنجھٹ کا
کہیں گے ساقیؔ سرمست شعر تر کیا ہم
ہمارے حصہ میں آیا ہے جام تلچھٹ کا