حریم ناز ہے اور ایک رند مے خانہ

حریم ناز ہے اور ایک رند مے خانہ
در قبول ہے اور لغزشوں کا نذرانہ


یہ فیض تیرے کرم کا ہے پیر مے خانہ
کہ ہر مقام سے گزرا ہوں بے نیازانہ


خرد پہ ناز یقین و عمل سے بیگانہ
نقیب وہم و گماں رہبران فرزانہ


زبان شوق پہ آئے گا دل کا افسانہ
کہیں گے ان سے حکایات گیسو و شانہ


مژہ پہ آئے نہ بیتاب دل کا افسانہ
چھلک نہ جائے کہیں چشم تر کا پیمانہ


پرائے غم سے رہوں کس طرح میں بیگانہ
نہ محتسب ہوں نہ ملا نہ پیر مے خانہ


حدیں حرم کی بنا لیں جناب شیخ مگر
بنائی جائیں گی کیسے حدود مے خانہ


تمہاری بزم سے اپنی وفا کی منزل تک
ملا نہ راہ میں اپنا نہ کوئی بیگانہ


ہمارا نام لیا جا رہا ہے جام کے ساتھ
بدل گیا ہے یقیناً نظام مے خانہ


نگار خانۂ دل اور توہمات کا عکس
بنا لیا ہے حقیقت کو ہم نے افسانہ