حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار

حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار
کہ گوش رکھتے ہیں سب سر بہ سر در و دیوار


نوید مقدم فصل بہار سن سن کر
اڑیں گے شوق میں بے بال و پر در و دیوار


شب فراق میں گھر مجھ کو کاٹے کھاتا ہے
بنا ہے اک سگ دیوانہ ہر در و دیوار


تمہارے غم نے وہ صورت مری بنائی ہے
کہ رو رہے ہیں مرے حال پر در و دیوار


ہجوم رنج و قلق میں ظہیرؔ کیا کہئے
نہیں ہیں مونس خلوت مگر در و دیوار