ہرگز نہ راہ پائی فردا و دی نے دل پر
ہرگز نہ راہ پائی فردا و دی نے دل پر
رہتی ہے ایک حالت بارہ مہینے دل پر
سکتے میں ہیں مہ و مہر دریا پڑے ہیں بے بحر
ہے سخت غیر موزوں دنیا زمین دل پر
شعلہ چراغ میں ہے سودا دماغ میں ہے
ثابت قدم ہوں اب تک دین مبین دل پر
یا ایہا المجاذیب ہے بسکہ زیر ترتیب
مجموعۃ الفتاویٰ قول متین دل پر
لکھ لو یہ میری رائے کیا کیا ستم نہ ڈھائے
کل دل نے آدمی پر آج آدمی نے دل پر
یہ رنج نا کشیدہ یہ جیب نادریدہ
اے عشق رحم ہاں رحم ان تارکین دل پر
مانو یہ گھر نہ چھوڑو دنیا کو دیکھتے ہو
جو کچھ گزر چکی ہے اس نا مکین دل پر
اک سر ہے نا کشودہ اک قول نا شنودہ
اک نغمہ نا سرودہ طرز نوین دل پر
پڑتا ہے جستہ جستہ مدھم سا اور شکستہ
اک ماہ نیلمیں کا پرتو نگین دل پر
سو بار ادھر سے گزرا وہ آتشیں چمن سا
اک برگ گل نہ رکھا دست یمین دل پر
خوں بستہ چشم حیراں پیوستہ لعن گرداں
بے دید بلکہ بے درد بلکہ کمینے دل پر
طوفان اٹھا رکھا تھا آنکھوں نے واہ وا کا
اس کی نظر نہیں تھی کل آفرین دل پر
رنگین تو بہت ہے دنیا مگر مہاشے
دھبے سے پڑ گئے ہیں کچھ آستین دل پر
وہ ماہ نازنیں ہے یا سرو آتشیں ہے
یا فتنۂ قیامت برپا زمین دل پر
سب نا ملامتوں کو سب بے کرامتوں کو
سب سر سلامتوں کو لانا ہے دین دل پر
جاویدؔ کو دکھا کر کہتا ہے سب سے دلبر
اودھم مچا رکھا تھا ان بھائی جی نے دل پر
فاروقی اور احمد مشتاق کو تحیت
شاخ غمگین دل پر حصن حصین دل پر