حرف میں خون جگر کس کا ہے
حرف میں خون جگر کس کا ہے
ہم سے پوچھو یہ ہنر کس کا ہے
اجنبی ہے نہ شناسا کوئی
ایک سایہ سا مگر کس کا ہے
ہجر کی شب کو لہو ہم نے دیا
اب کہو رنگ سحر کس کا ہے
خلوت جاں میں ہے اک ہلچل سی
اس طرف قصد سفر کس کا ہے
تو اگر سامنے موجود نہیں
حسن تا حد نظر کس کا ہے
سنگ ہی سنگ ہیں آنگن میں ضیاؔ
پس دیوار شجر کس کا ہے