حرف آخر

یہ آدمی کی گزر گاہ شاہراہ حیات
ہزاروں سال کا بار گراں اٹھائے ہوئے
جبیں پہ کاتب تقدیر کی جلی تحریر
گلے سے سیکڑوں نقش قدم لگائے ہوئے
گزرتے وقت کے گرد و غبار کے نیچے
حسین جسم کی تابندگی چھپائے ہوئے
گزشتہ دور کی تہذیب کی منازل کو
جوان ماں کی طرح گود میں سلائے ہوئے
یہ آدمی کی گزر گاہ شاہراہ حیات
ہزاروں سال کا بار گراں اٹھائے ہوئے
ادھر سے گزرے ہیں چنگیز و نادر و تیمور
لہو میں بھیگی ہوئی مشعلیں جلائے ہوئے
غلاموں اور کنیزوں کے کارواں آئے
خود اپنے خون میں ڈوبے ہوئے نہائے ہوئے
شکستہ دوش پہ دیوار چین کو لادے
سروں پہ مصر کے احرام کو اٹھائے ہوئے
جلال شیخ و شکوہ برہمنی کے جلوس
ہوس کے سینوں میں آتش کدے چھپائے ہوئے
جہالتوں کی طویل و عریض پرچھائیں
توہمات کی تاریکیاں جگائے ہوئے
سفید قوم کے عیار تاجروں کے گروہ
فریب و مکر سے اپنی دکاں سجائے ہوئے
شکست خوردہ سیاسی گداگروں کے ہجوم
ادب سے ٹوٹی ہوئی گردنیں جھکائے ہوئے
غموں سے چور مسافر تھکے ہوئے راہی
چراغ روح کے دل کے کنول بجھائے ہوئے
یہ آدمی کی گزر گاہ شاہراہ حیات
ہزاروں سال کا بار گراں اٹھائے ہوئے
نئے افق سے نئے قافلوں کی آمد ہے
چراغ وقت کی رنگین لو بڑھائے ہوئے
بغاوتوں کی سپہ انقلاب کے لشکر
زمیں پہ پاؤں فلک پہ نظر جمائے ہوئے
غرور فتح کے پرچم ہوا میں لہراتے
ثبات و عزم کے اونچے علم اٹھائے ہوئے
ہتھیلیوں پہ لیے آفتاب اور مہتاب
بغل میں کرۂ ارض حسیں دبائے ہوئے
اٹھو اور اٹھ کے انہیں قافلوں میں مل جاؤ
جو منزلوں کو ہیں گرد سفر بنائے ہوئے
قدم بڑھائے ہوئے ہیں مجاہدان وطن
مجاہدان‌ وطن ہیں قدم بڑھائے ہوئے