حرم میں

سراب جاں کو جہاں کی چمک سمجھتے رہے
رہا وہ روح میں ہم جسم تک سمجھتے رہے


پتا چلا کہ وہ خاک حرم کی خوشبو تھی
کہ جس کو سجدے میں گل کی مہک سمجھتے رہے


عجب تھی کیفیت جاں طواف کے دوراں
ہم اپنے آپ کو رشک ملک سمجھتے رہے


خدا کو ڈھونڈنے کا کب ہمیں خیال آیا
ہم اپنی ذات کو اس کی جھلک سمجھتے رہے


حسین وقت گزارا خدا کے گھر میں عدیلؔ
زمیں تھی زیر قدم ہم فلک سمجھتے رہے