ہر طرف پتھر ہی پتھر درمیاں شیشے کا گھر

ہر طرف پتھر ہی پتھر درمیاں شیشے کا گھر
لے رہا ہے شاید اپنا امتحاں شیشے کا گھر


دور تک ہر سمت ہیں لاکھوں دھنک بکھرے ہوئے
ٹوٹ کر ہے اور بھی کچھ ضو فشاں شیشے کا گھر


کیوں گھنے پیڑوں کے سایوں سے بلاتا ہے انہیں
بن رہا ہے کیوں مذاق رہ رواں شیشے کا گھر


ہے یہ بہتر پتھروں کے دور میں واپس چلیں
دھیرے دھیرے بن گیا سارا جہاں شیشے کا گھر


نم زمیں پر ٹوٹی پھوٹی پھوس کی چھت کے تلے
کر رہا ہوں یاد دیکھا تھا کہاں شیشے کا گھر


اس کی شفافی ہی اس کا حسن اس کی زندگی
کیسے بن جائے گا طیبؔ سائباں شیشے کا گھر