ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہ طور کا


پڑھیے درود حسن صبیح و ملیح پر
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد کے نور کا


توڑوں یہ آئنہ کہ ہم آغوش عکس ہے
ہووے نہ مج کو پاس جو تیرے حضور کا


بیکس کوئی مرے تو جلے اس پہ دل مرا
گویا ہے یہ چراغ غریباں کی گور کا


ہم تو قفس میں آن کے خاموش ہو رہے
اے ہم صفیر فائدہ ناحق کے شور کا


ساقی سے کہہ کہ ہے شب مہتاب جلوہ گر
دے بسمہ پوش ہو کے تو ساغر بلور کا


سوداؔ کبھی نہ مانیو واعظ کی گفتگو
آوازۂ دہل ہے خوش آیند دور کا