ہر نقش نوا لوٹ کے جانے کے لیے تھا

ہر نقش نوا لوٹ کے جانے کے لیے تھا
جو بھول چکا ہوں وہ بھلانے کے لیے تھا


کچھ بھید زمانے کے بھی مجھ پر نہ کھلے تھے
کچھ میں بھی ریاکار زمانے کے لیے تھا


کچھ میں نے بھی بے وجہ ہنسی اس کی اڑائی
کچھ وہ بھی مری جان جلانے کے لیے تھا


کچھ لوگ جزیروں پہ کھڑے تھے سو کھڑے ہیں
سیلاب سفینوں کو بہانے کے لیے تھا


پیاسا جو نہ ہوتا تو سمندر سے نہ ملتا
دریا جو مری پیاس بجھانے کے لیے تھا


گرنی ہی تھی اک روز یہ دیوار بدن کی
یہ راہ کا پتھر بھی ہٹانے کے لیے تھا


سب میری اداسی میں تجھے ڈھونڈ رہے تھے
ہنسنا بھی مرا تجھ کو چھپانے کے لیے تھا


اک لہر کہ بس خاک اڑانے پہ بضد تھی
اک رنگ کہ پلکوں میں سجانے کے لیے تھا


اک لمحۂ خالی کی صدا سب نے سنی تھی
اک شور خموشی کو بڑھانے کے لیے تھا


خیرہ ہیں نگاہیں تو نہ کچھ دیکھ سکیں گی
منظر جو یہاں تھا نظر آنے کے لیے تھا


آپ اپنی جسارت سے تہہ آب ہوا ہے
وہ ڈوبنے والے کو بچانے کے لیے تھا