ہر جلوۂ حسن بے وطن ہے
ہر جلوۂ حسن بے وطن ہے
شاید کہ یہ محفل سخن ہے
اک وجد میں جسم و جان فن کار
ہے رقص کہ روح کا بدن ہے
ہر فکر مثال چہرہ روشن
ہر شعر میں بوئے پیرہن ہے
کافور کی شمعیں جل اٹھی ہیں
ابلاغ خیال کا کفن ہے
ہر ساز کی آرزو تکلم
ہر ساز سکوت پیرہن ہے