ہر اک دیوار ہر اک در ہمارا

ہر اک دیوار ہر اک در ہمارا
ملیں گر بن نہیں ہے گھر ہمارا


رقابت دور سے کریو ہماری
مقرر شعر ہے دیگر ہمارا


جہاں پر جا کے آمادہ پڑھو ہو
وہاں پر ذکر ہے دن بھر ہمارا


شتابی ہے نہیں ہم کو سخن کی
ہمیں انداز ہے اندر ہمارا


نشاں اپنا نہ پوچھو ہے کدھر تک
ہمارا ہے ادھر اودھر ہمارا


غلامی تم کرو اپنا زماں ہے
حکم نیچے سے ہے اوپر ہمارا


فقیری سے سبکدوشی ملے کب
عدم سے قبل ہے محشر ہمارا


ابانؔ در بہ در یہ چاک جیبی
کسو سے جل گیا بستر ہمارا