ہر گام پہ حالات سے اک نقش بنا ہے

ہر گام پہ حالات سے اک نقش بنا ہے
احساس مرا چاروں طرف پھیل گیا ہے


میں بھی ہوں تہی دست خریداروں کی صف میں
بستی میں مری مصر کا بازار لگا ہے


چاہے گا بھلا کون ہو دیواروں کا قیدی
تقدیر مگر بیر ہواؤں سے پڑا ہے


برتے ہوئے الفاظ مرے شعر نہ چھوئیں
حالات نئے ہیں مرا احساس نیا ہے


موجیں مرے پاؤں سے دبی ریت نہ لے جائیں
ارمان کے ساحل پہ کوئی سوچ رہا ہے


ہر موڑ پہ میں خود سے ملا ہاتھ پسارے
میں نے ہی مری سوچ پہ ہر وار کیا ہے