ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے


جو آنسوؤں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے
بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے


میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں
تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے


میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وو خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے


دبا کے آئی ہے سینے میں کون سی آہیں
کچھ آج رنگ ترا سانولا لگے ہے مجھے


اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھیے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے


حکایت غم دل کچھ کشش تو رکھتی ہے
زمانہ غور سے سنتا ہوا لگے ہے مجھے