ہر آن نئی شان ہے ہر لمحہ نیا ہے

ہر آن نئی شان ہے ہر لمحہ نیا ہے
آئینۂ ایام ہے یا تیری ادا ہے


رہبر جسے حیرت سے کھڑا دیکھ رہا ہے
وہ رہ رو گم گشتہ کا نقش کف پا ہے


نالوں نے یہ بلبل کے بڑا کام کیا ہے
اب آتش گل ہی سے چمن جلنے لگا ہے


اے جان وفا دل کے عوض درد لیا ہے
کچھ سوچ سمجھ کر ہی تو یہ کام کیا ہے


پہروں پس دیوار کھڑا تھا سو کھڑا ہے
دیوانہ ہے پابند رہ رسم و وفا ہے


تنہائی میں محسوس ہوا ہے مجھے اکثر
جیسے مرے اندر سے کوئی بول رہا ہے


طاری ہے سکوت آج سمندر کی فضا پر
گہرائی میں شاید کوئی طوفان اٹھا ہے


کرتا تھا جو خاموشی کی تلقین ہمیشہ
ہمسایہ مرا خواب میں وہ چیخ رہا ہے


زنداں کے دریچوں سے ہے پھر شوق نے جھانکا
شاید کہ جنوں خیز گلستاں کی ہوا ہے


یہ گردش ایام کا احسان ہے طرزیؔ
اب زخم کہن اپنا ہرا ہونے لگا ہے