حقیقت کیا بتاؤں زندگی کی

حقیقت کیا بتاؤں زندگی کی
اسے لت پڑ گئی ہے آدمی کی


یہ گھر میں سائیں سائیں سن رہے ہو
یہی آواز تو ہے خامشی کی


میرے قدموں میں گر کر وقت رویا
سوئی الٹی گھمائی جب گھڑی کی


کبھی باہر جو نکلے پاؤں میرے
تو گھٹنے موڑ کر چادر بڑی کی


مجھے جب ڈھونڈنے کوئی نہ آیا
تو میں نے خود ہی اپنی مخبری کی


سنا ہے قیس نے صحرا سے آ کر
مثالیں دیں مری دیوانگی کی