حقیقت اور فکشن

حقیقت کیا ہے؟ اورفکشن کیا ہے؟ ان سوالات پرانسان ہمیشہ سے غور کرتا آیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’حقیقت‘‘ وہ ہے جس کا حواس خمسہ کے ذریعے ادراک ہوتا ہے، بعض دوسروں کا خیال ہے کہ ہمارے حواس خمسہ حقیقت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، وہ بالعموم غلط یا ناقص ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ ’’اصل حقیقت‘‘ سامنے کی حقیقت سے ماورا ہے۔


’’سامنے کی حقیقت‘‘ کے ناقص ادراک کے حوالے سے فرانسس کرک نے اپنی تازہ ترین کتاب ’’The Astonishing Hypothesis‘‘ میں ایک مزے دار بات کہی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہمارے دیکھنے کے عمل میں ایک ’’نظرنہ آنے والی جگہ‘‘ بھی ہوتی ہے جسے اس نے ’’Blind Spot‘‘ کہا ہے۔ انسانی دماغ کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس ’’نظر نہ آنے والی جگہ‘‘ کے اندھے سوراخ کو بھردیتا ہے لہٰذا بصارت کے عمل میں کوئی ناہمواری یا عدم تسلسل نمودار نہیں ہوتا۔ تاہم اس ’’Blind Spot‘‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ اگر آپ اپنی آنکھ بند کرکے اور اپنی انگشت شہادت کو ناک سے ایک فٹ کی دوری پر عموداً کھڑا کرکے انگلی کے ناخن پر اپنی نظر مرکوز کردیں اورپھر نظر کو اس مقام پر مرکوز رکھتے ہوئے انگلی کو ایک جانب آہستہ آہستہ ہٹائیں توایک ایسی جگہ آجائے گی جہاں آپ کی انگلی کا ناخن غائب ہوجائے گا۔ مگرچند ہی لمحوں کے بعد دوبارہ نظرآنے لگے گا۔ ناخن کے غائب ہونے والی اس ’’جگہ‘‘ کو اس نے ’’Blind Spot‘‘ کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ یہی وہ ’’جگہ‘‘ ہے جسے انسانی دماغ بھر دیتا ہے۔


اگر یہ بات درست ہے توپھر جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، اس کا بیشتر حصہ انسانی دماغ کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔ انسانی دماغ کا یہ وصف ہے کہ وہ اجزاء کوجوڑ کر کل یعنی Whole بناتا ہے دوسرے لفظوں میں بصارت کے راستے میں آنے والے شگافوں کو پر کرکے ایک جڑی ہوئی صورت یا Appearanceکو وجود میں لاتا ہے۔ اگراس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر Appearance بجائے خودایک فکشن ہے۔ ایک اندھا سوراخ جو حقیقت کے اندر نمودار ہوتا ہے۔


بظاہر یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے لیکن قدیم زمانے سے انسانی فکر یہی بات کہتی آئی ہے۔ ویدانت نے ’’نظر‘‘ آنے والی حقیقت کو مایا کہا تھاجس کا مطلب تھا کہ وہ Illutionیا فکشن ہے۔ ’’اصل حقیقت‘‘ برہم تھی اوراسی حوالے سے لامحدود اور لازوال بھی تھی۔ تصوف نے ’’نظرآنے والی حقیقت‘‘ کو سراب کہا اور ’’اصل حقیقت‘‘ کو ایک ایسی ازلی وابدی روشنی کا نام دیا جو بجائے خود بصارت بھی تھی اور بصیرت بھی۔ یونانی فلسفے نے ’’نظرآنے والی حقیقت‘‘ کو ’’اصل حقیقت‘‘ کا ظل یا سایہ قرار دیا۔ گویا اس کی اصلیت کو شبہ کی نظروں سے دیکھا۔ البتہ کانٹ نے دوئی کا تصور پیش کیا۔ اس کا یہ موقف تھا کہ ’’نظر آنے والی حقیقت‘‘ اوراس کے عقب میں ’’Thing in itself‘‘ دونوں حقیقی ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ سامنے کی حقیقت کو توجانا جاسکتا ہے مگر ’’Thing in itself‘‘ انسانی ادراک سے ماورا ہے۔ اسے اس نے ’’Noumenon‘‘ کہا ہے یعنی وہ ’’جسے جانا نہیں جاسکتا۔‘‘ تاہم اس نے Appearance کو مایا، سراب یا ظل نہیں کہا۔


سارترے نے کانٹ کی ’’Thing in itself‘‘ سے انکار کیا اوراسی حوالے سے موجود کے عقب میں کسی جوہر یا (Easence) کی موجودگی سے بھی انکار کیا۔ سارترے کا موقف یہ تھا کہ موجود یا Existence ہی جوہر ہے۔ مگر اس موجود کا ادراک کرنے کے راستے میں رکاوٹیں ہیں۔ دراصل سارترنے ’’غیرانسانی موجودگی‘‘ اور ’’انسانی موجودگی‘‘ میں فرق قائم کیا۔ اس نے غیر انسانی موجودگی کوin itselfکہا اور ’’انسانی موجودگی‘‘ کو ’’For itself‘‘ کا نام دیا۔ نیز کہا کہ ’’مؤخرالذکر کی موجودگی‘‘ نے ’’مقدم الذکر موجودگی‘‘ کے اندر سے جنم لیا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس جگہ پر جہاں سے وہ نمودار ہوئی ہے، ایک خلا بصورت “Blind Spot”باقی رہ گیا ہے۔ سارترنے کہا کہ For itself بجائے خوداصل موجودگی کے اندر ایک ’’خالی جگہ‘‘ ہے۔


عام طورپر for itself اپنے ہونے کا علم نہیں رکھتی اور معمولات کے تابع رہتی ہے مگرکسی بحران کی زد میں آتے ہی اپنے ظاہر یا Appearance کے نقاب کواتار کر غیر انسانی موجودگی یعنی In itself کے روبرو آجاتی ہے اور تب اسے وہ منسوخ یا Rupture دکھائی دیتا ہے جو اس وقت پیدا ہوا تھا جب خود for itself نے in-iteslf کے اندر سے جنم لیا تھا۔ اس مقام پر for-iteslf خود کو مجبور پاتی ہے کہ in-iteslf میں موجود Rupture کو بھردے مگر جانتی ہے کہ ایسا کرنے کے لیے اسے سوراخ میں اترنا ہوگا جو قربانی دینے کا ایک مرحلہ ہے۔ یہی وہ ہولناک مقام ہے جہاں انسان کو خوف، متلی، بے معنویت اور یاسیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ ایک طرح کا روحانی تجربہ بھی ہے کیونکہ صوفی بھی جب عرفان کے ذائقے سے آشنا ہوتا ہے تولرزہ اندام ہوجاتا ہے۔ البتہ دنووں میں فرق یہ ہے کہ صوفی in-iteslf کے روبرو آنے پر خودکو عالم حیرت میں پاتا ہے جس کے بعدا س پر مستی اور روحانی انبساط کے دروازے کھل جاتے ہیں جبکہ وجودی فلاسفر اس عالم میں خود کو بھسم ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔


دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سارتر نے قدیم مسلک کو الٹ دیا ہے۔ قدیم مسلک کے مطابق ’’ظاہر‘‘ فریب یا سراب ہے جبکہ ’’اصل حقیقت‘‘ اس کے عقب میں ہے۔ سارترکے مطابق ’’ظاہر‘‘ ہی اصل حقیقت ہے۔ اس کے عقب میں کوئی ازلی وابدی حقیقت نہیں ہے مگر ساتھ ہی اس نے ’’ظاہر‘‘ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک وہ جو نظرآتا ہے مگرجو ایک خالی جگہ یا ’’انسانی موجودگی‘‘ ہے اور دوسرا جو ’’غیرانسانی موجودگی‘‘ ہے مگر نظر نہیں آتا، صرف بحرانی کیفیت میں مبتلا ہونے پر ہی دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نے ظاہر کو فریب اور غیب کو حقیقی قرار دینے کے بجائے ’’ظاہر‘‘ کو ’’حاضر اور غیب‘‘ میں تقسیم کردیا ہے۔ ’’حاضر‘‘ جو ناموجود یا فکشن ہے اور غائب جو ’’موجود‘‘ یا حقیقت ہے۔


سارتر کی For itself مکمل فراق اور انکار ہے۔ وہ ہمہ وقت تبدیلی سے ہم کنار ہے۔ وہ سداخود کو مرتب کرتی رہتی ہے۔ اس کا انداز ’’زمانی‘‘ ہے (گویا یہ تاریخ کی کارکردگی سے مملو ہے) مگروہ in-itself سے ہم رشتہ بھی ہے کیونکہ اس کا فراق in-itself سے ہوا ہے۔ سمندر کی سطح پر لہروں کا خروش سمندر کی موجودگی سے مشروط ہوتا ہے۔ یہ خروش سمندر کے شانت وجود سے انکار اور انحراف تو ہے ہی، اس سے الگ ایک نئی حقیقت کا اعلامیہ بھی ہے مگراس کی ماں بہرحال سمندر ہی ہے۔ اس سمندر یعنی in- itself کے بطن سے for-iteslfکا نمودار ہونا سامنے کی حقیقیت(یعنیAppearance) بھی ہے، تاہم اس کا ایک ماضی بھی ہے جب وہ in-itself سے الگ ہوئی تھی تو (بعینہ جیسے آدم جنت سے الگ ہوا تھا) اورمستقبل بھی۔ مگراپنے اس ’’ہونے‘‘ میں for- itself اورانسانی شعور ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتے ہیں۔


زبان کے وظیفے کو سامنے رکھیں تو کچھ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی ہے۔ اس میں بھی پارول (یعنی زبان کی جملوں میں کارکردگی) لانگ (یعنی زبان کا سسٹم) کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ لانگ زبان کا شانت روپ ہے جو اصلاً بے زمانی کا حامل ہے مگراس کے اندر سے باہر آنے والی پارول لہروں کے اتار چڑھاؤ کا منظر دکھاتی ہے۔ وہ ایک بھوکی خواہش ہے جو ہمہ وقت لفظوں سے جملے بنانے کے ایک لامتناہی عمل میں مصروف رہتی ہے۔ وہ باہر کی دنیا یعنی Phenomenal World سے مشابہ ہے جو تمام تر تغیر وتبدل ہے۔


for-itself کی طرح پارول بھی کمی یا Lack ہے، ایک طرح کی ناموجودگی جو اپنے اندر کی موجودگی یعنی لانگ کے روبرو آنے پر مجبور ہے۔ تاہم لانگ اور پارول دو الگ اکائیاں نہیں ہیں۔ وہ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ ایک رخ جو بے زمانی کا حامل ایک سسٹم ہے، دوسرا جو زمانی ہونے کے حوالے سے ہمہ تن کارکردگی یا Performance ہے۔ پارول سدالانگ کو مس کرکے خودکومنقلب کرتی ہے دوسری طرف یہ بات بھی صحیح ہے کہ لانگ اپنے ہونے کا اعلان کرنے کے لیے پارول کا سہارا لیتی ہے۔


زماں اور مکاں کے زاویے سے دیکھیں تو تصویر اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔ زماں اور مکاں ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔ جب تک مکاں Space کے اندر زماں Time کا سوراخ یا Rupture نمودار نہیں ہوا تھا، وہ محض عدم تھا مگر زماں نے وجود میں آکر مکاں کی حدود کو واضح کیا۔ دوسری طرف خود زماں (یارول یا Performance) کا وجود بھی مکاں کے ’’ہونے‘‘ سے مشروط تھا۔ زماں ایک حالت تغیر کا نام تھا۔ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک (خواہش) تھی جس نے زماں کا روپ دھار لیا تھا (بدھ مت میں اس خواہش کو اندر سے خالی قرار دیا گیا ہے۔) اس کا ایک ماضی بھی تھا، حال بھی اورمستقبل بھی! زماں کے نمودار ہونے سے ہی کثرت کا عالم وجود میں آیا جس میں مادہ اور زندگی کی پیچیدگیاں اورالجھنیں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ مکاں کے اندرسے زماں کی نمود اصلاً in-itself کے بطن سے for itself کے جنم سے مشابہ تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔


جورشتہ مکاں اور زماں، لانگ اور پارول میں ہے، وہی رشتہ متھ اور فکشن میں بھی ہے۔ متھ ایک طرح کی ثابت قدمی یا Stabilityکا اعلامیہ ہے جب کہ فکشن تغیرات کا۔ متھ کا کام تخلیقی سوچ کوایک ایسی ساخت یا مد (Category) مہیا کرنا ہے جس کے مطابق فکشن نئے سے نئے روابط یا رشتے مرتب کرنے میں جٹی رہے۔ فکشن ایک بھوکی خواہش ہے۔ ایک ہمہ وقت تبدیل ہوتا منظرنامہ ہے جس کی گہرائی کا کوئی انت نہیں ہے۔ (دریدا کے الفاظ میں یہ ایک گورکھ دھندا یا Labyrinth ہے جس میں لامرکزیت، فرق، التوا یہ سب شامل ہیں اورجو ’’تحریر‘‘ کو ہمارے سامنے ایک ’’گہراؤ‘‘ کی صورت میں پیش کرتا ہے) نیز جس کی ساری کارکردگی متھ کی مہیا کردہ ساخت کے مطابق ہے (جس سے دریدا منکر ہے۔) مگرجس طرح خون میں بعض اوقات Clots نمودار ہوجاتے ہیں، جن سے لہو کی روانی رکنے لگتی ہے، اسی طرح فکشن میں بھی کلیشے نمودارہوجاتے ہیں اور وہ تکرار کی مرتکب ہونے لگتی ہے۔ یہ فکشن کا زوال ہے۔


فکشن کے لیے ہمہ وقت تروتازہ رہنا اور نئے نئے منطقوں کو وجود میں لانا لازمی ہے مگر یہ جبھی ممکن ہے کہ وہ متھ کی مہیا کردہ ساخت سے ایک تخلیقی رشتہ استوار رکھے۔ فکشن کے لیے لازم ہے کہ وہ ہمہ وقت خودکو نئے سرے سے وجود میں لاتی ر ہے، خود کو Recreate کرتی رہے۔ چنانچہ بعض اوقات فکشن اپنی کارکردگی کو روک کر خوداپنے آپ کو ’’تیسری آنکھ‘‘ سے دیکھنے لگتی ہے۔ یوں اسے اپنی Fictionalityکو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ اپنی بنت کاری کے عمل کو دیکھتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے خود کو Deconstruct بھی کرلیتی ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کوئی شخص آنکھوں پر سے عینک اتاردے اورپھر عینک کودیکھ کر محظوظ ہونے لگے۔ تخلیقی عمل میں یہ وہ مقام ہے جہاں تخلیق کار رک کر اپنے اندر کے نراج Chaosسے آشنا ہوتا ہے اورپھر اس کی قوت سے لیس ہوکر تخلیقی زقند لگاتا ہے۔


اس اعتبار سے دیکھئے تو تخلیق کار اپنے اندر کی بے نام اور بے زماں in-itself کوشباہت بخشنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ فکشن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب فکشن اپنی تخلیق کاری کا مظاہرہ کرتی ہے تو متھ کو ایک نئی صورت عطا کردیتی ہے۔ یعنی وہ متھ کے اندر تخلیقی زقند یں لگاتی ہے۔ نئی صورتوں کو وجود میں لاتی ہے۔


غیرانسانی موجودگی یعنی in-itselfکے مقام پر کھڑے ہوکر دیکھیں تو for-itself دوقاش نظر آئے گی جو in-itself کے ’’بدن‘‘ سے ٹوٹ کر الگ ہوئی تھی اورجس کی بازیابی کی وہ متمنی ہے تاکہ ایک بارپھر ہموار ہوجائے (سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس اعتبار سے خود in-itselfبھی ’’خواہش‘‘ کا دوسرا نام نہیں ہے) دوسری طرف اگر آپ for-itself کے زاویے سے دیکھیں تو وہ کوئی ایسی بے جان قاش دکھائی نہیں دے گی جسے in-itself نگل لینا چاہتی ہے کیونکہ اس کی ایک اپنی قوت اور شناخت بھی ہے۔ خواہش سے لبریز یہ قاش جب ازخود in-itselfکی طرف بڑھتی ہے تو بظاہر وہ اس خلا یا شگاف کو بھرتی ہے جو خوداس کے نکلنے سے in-itself کے اندرپیدا ہوا تھا تاہم وہ اس عمل میں in-itselfکو ’’بیج‘‘ بھی مہیا کردیتی ہے۔ ایک ایسا بیج جو کچھ عرصہ کے بعد in-itselfسے دوبارہ چھوٹ کر اسی طرح باہر آتا ہے جیسے پہلا for-itself باہر آیا تھا۔


عارف جب شگاف کو بھرتا ہے تو اپنے وجود کو in-itself میں جذب کرکے خود ہی in-itself بن جاتا ہے۔ وجودی فلاسفر جب in-itself کے شگاف کو پر کرنے کے لیے آگے آتا ہے تو خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس کی پیش قدمی اس جان لیوا احساس تک ہی ہے جو تخلیق کاری میں محض ایک مرحلہ ہے۔ اصل بات اس زاویہ نگاہ کا پیدا ہونا ہے جو in-itself کے اندر for-itself کے نقطے کو دیکھے، اس کے بعد for-iteslf کے جنم لینے کا منظر دیکھے پھر for-itself کی in-itself کی طرف مراجعت کا مشاہدہ کرے، پھر دیکھے کہ کس طرح for-itself نے خود کو in-itself میں جذب کرکے شگاف کو بھر دیا ہے اورآخر میں in-itself کے اندر سے for-itself کے ایک اور جنم کا نظارہ کرے تاہم یہ کوئی میکانکی پراسس نہیں ہے کیونکہ ہر نیا for-itself سابقہ for-itself کا نمونہ یا Replicaنہیں ہوتا بلکہ منقلب ہوکر ایک نیا وجود بن گیا ہوتا ہے۔


فکشن اور حقیقت ایک دوسرے کی مخالف نہیں بلکہ ایک دوسری سے مشروط ہیں۔ فکشن، حقیقت کی شاخت، بے شباہت اور لامتناہی بے زمانی سے فرار کی ایک صورت ہے اور یہ فرار اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی اپنی آنکھوں کے آگے ایک پردہ تان دے تاکہ اسے دوسرا فریق دکھائی نہ دے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو فکشن بجائے خود وہ ظاہر یعنی Appearance ہے جس نے ’’حقیقت‘‘ سے پردہ کیا ہے۔ وجودی فلاسفر کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ for-itself کی کارکردگی ایک فرار ہے لہٰذا وہ Appearance کے پردے کو ہٹاکر in-itself کے روبرو آنے اوراس کے شگاف یا گہراؤ کو دیکھنے کے کربناک تجربے کو اصلی عمل گردانتا ہے۔ دوسری طرف عارف بھی پردے کو چاک کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ in-itself کے شگاف کو دیکھے بلکہ اس لیے کہ وہ حقیقت میں ضم ہوجائے۔ دونوں ’’پردے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تاہم دونوں اس سے مختلف مفہوم لیتے ہیں۔


عارف کے نزدیک کروٹیں لیتا، ہردم تبدیل ہوتا، وقت کے تینوں ابعاد کی زد میں آیا ہوا ظاہر Appearance فریب نظر یا مایا کا ایک پردہ ہے جسے ہٹائیں گے تو اصل حقیقت میں جذب ہونے کا موقع ملے گا۔ وجودی فلاسفر کے نزدیک پردے کو ہٹائیں گے تو in-iself کے گہراؤ یا شگاف کے کنارے کھڑا ہونے کا وہ کرب انگیز تجربہ حاصل ہوگا جو اصلاً ’’آزادی‘‘ کا ایک لمحہ ہے۔


پردہ (Veil) ظاہر یعنی Appearance اورفکشن، تینوں ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں مگراس چیز کا ’’حقیقت‘‘ سے ایک مثبت رشتہ ہے جس پر غور کرنے سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ حقیقت اور فکشن ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ظاہر کی بنت کاری کے اندر ایک ’’چور‘‘ موجودہے جو اس کے شوخ رنگوں، پیچیدہ گرہوں نیز اس کے تسلسل کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتا۔ انسانی دماغ میں یہ بات ودیعت ہے کہ وہ بکھری ہوئی اشیاء کے مقابلے میں یکجا چیزوں کو پہلے دیکھتا ہے۔ مثلاً کسی میدان میں اگر جگہ جگہ درخت موجود ہوں مگر ایک جگہ درختوں کا جھنڈ ہو تو نظر سب سے پہلے اس جھنڈ پر مرکوز ہوگی۔


گویادماغ قربت یعنی Contiguityکو سب سے پہلے گرفت میں لینے پر مجبور ہے۔ اسی طرح اگر کاغذ پر مختلف سمتوں سے کھینچے گئے خطوط ایک مقام سے قریب آکر رک جائیں تو وہ ’’تسلسل‘‘ کے احساس کو جنم دیں گے۔ ’’تسلسل‘‘ کا یہ احساس جو دراصل زماں کے بہاؤ کا احساس ہے، ہمارے دماغ ہی کا تشکیل کردہ ہے۔ ظاہر کو ہمارے دماغ نے ’’قربت‘‘ اور ’’تسلسل‘‘ کے تحت لاکر ایک ایسا پردہ بنا دیا ہے جس کے دھاگوں کی دبازت پر نیز ان کے تسلسل پر ہماری نگاہیں مرکوز ہوجاتی ہیں لہٰذا ہمیں پردے میں موجود ’’چہرہ‘‘ نظرہی نہیں آتا۔ اگر پردے کی گنجانی کو مدھم اوراس کے دھاگوں کے تسلسل کو توڑ دیا جائے تو اس میں موجود ’’چہرہ‘‘ صاف دکھائی دینے لگے۔


ادب کی صورت یہ ہے کہ اگرحقیقت نگاری یعنی Realism پر تمام تر توجہ مرکوز کردی جائے تو تفصیل یعنی Detailگنجان نظرآئے گی کہ اس کے اندر کا منطقہ دکھائی ہی نہیں دے گا۔ علامت نگاری کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ وہ ظاہر کی دبازت (یعنی تفصیل) کو کم کرتی ہے تاکہ اس کی بنت کاری میں موجود چہرہ دکھائی دینے لگے۔ تفصیل کے اندر گورکھ دھندا یعنی Labyrinth نیز گہراؤ اور قربت، یہ سب کچھ موجود ہوتا ہے جس سے وژن دھندلا جاتا ہے۔ جذبات کا بوجھ بھی وژن کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ جب ظاہر کی تفصیل کو مدھم کردیا جائے اور بوجھل جذبات نازک محسوسات میں تبدیل ہوجائیں توظاہر کی اندر سے حقیت کی شبیہ جھلکنے لگتی ہے۔


اس بات کو ایک اور زاویے سے دیکھنا بھی ممکن ہے۔ سب جانتے ہیں کہ متحرک فلم دراصل الگ الگ تصاویر (مراد Snap Shots) کا ایک رواں سلسلہ ہے۔ گویا یہ منجمد لمحات ہیں جو اپنے اپنے فریم میں بند ہیں۔ اگران فریموں کو ۲۴ فریم فی سیکنڈ کے حساب سے متحرک کیا جائے تو اسکرین پر الگ الگ تصاویر دکھائی نہیں دیں گی بلکہ چلتی پھرتی زندگی نظر آئے گی۔ غور کیجئے کہ دوچیزوں نے زندگی کی منجمد صورت کو متحرک صورت عطا کی ہے۔ ان میں سے ایک قربت (Contiguity) ہے اور دوسری رفتار (Speed) اگررفتار کو کم کردیا جائے تو اسکرین پر آہستہ روی یعنی (Slow Motion) کا منظر دکھائی دینے لگے گا۔


مزید کم کردیں تو تصویروں کے درمیان بڑے بڑے وقفے نظرآنے لگیں گے۔ یعنی شگاف یا Rupture نمودار ہوجائیں گے جن میں سے عقب کو دیکھنا ممکن ہوگا۔ جب رفتار بہت کم ہوجائے تو ہر تصویر الگ الگ نظر آئے گی اور ان کے درمیان فاصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ آخر میں جب رفتار منہا ہوجائے گی تو تصویر بھی ساکت اور جامد دکھائی دینے لگے گی (شاید اسی کا نام موت ہے۔) ادب اس صورت میں تخلیق ہوتا ہے جب تصاویر کی رفتار کم ہوکر اس مقام پر آجائے جہاں ’’ظاہر‘‘ کی بنت میں موجود چہرے کا خاکہ نظرآنے لگے۔ بصورت دیگر تحریر فقط ’’ظاہر ‘‘ کو بیان کرنے تک محدود رہے گی۔


اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ظاہر یعنی Appearance کو رکاوٹ، فریب نظر یا مایا سمجھ کر مسترد کردیا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ’’ظاہر‘‘ غیب کے لیے ناگزیر ہے اور ’’غیب‘‘ ظاہر کے لیے ضروری۔ اگر ’’ظاہر‘‘ (پارول، زماں، for-itself) موجود نہیں تو ’’غیب‘‘ کی موجودگی کا احساس بھی ممکن نہیں اور اگر ’’غیب‘‘ ناموجود ہے تو ’’ظاہر‘‘ کے وجود میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ہی ازلی وابدی حقیقت ہے جو اپنے ’’ہونے‘‘ کا اپنے ’’نہ ہونے‘‘ سے انکشاف کرتی ہے۔ عارفوں، موجودی فلاسفروں اور ساخت شکن مفکرین، ان سب نے اپنے اپنے طورپر حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش کی ہے۔


ان میں سے موجودی فلاسفروں اور ساخت شکن مفکرین کے تجربات میں یہ قدر مشترک موجود ہے کہ دونوں نے ’’حقیقت‘‘ کے ہولناک پہلو کو دیکھا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ موجودی مفکرین نے اس تجربے کو آزادی کا لمحہ بتایا ہے اور in-itselfکے شگاف کو محض ایک گورکھ دھندا، گرداب یا گہراؤ گردانا ہے، جس کے اندر انسان گرتا ہی چلا جاتا ہے مگرجس کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ اس کے برعکس عارفین نے حقیقت کے روبرو آنے کے تجربے کو ماورائی یا Transcendental قرار دیا ہے۔


عارفین نے ’’ظاہر‘‘ کی بوقلمونی، تغیر، اس کے مدوجزر اور پیچ و خم کوسراب کہا ہے جبکہ موجودیوں نے ’’بے زمانی‘‘ اور ’’ماورائیت‘‘ کو مسترد کیا ہے۔ دوسری طرف تخلیق کاروں نے ان دونوں کو باہم مربوط کردیا ہے۔ تخلیق کار ’’ظاہر‘‘ کو مسترد نہیں کرتا، البتہ ظاہر کی رفتار کو کم کرکے اور یوں اس کی گنجان بنت کاری میں شگاف یا Ruptureپیدا کرکے ’’چہرے‘‘ کو دیکھنے کا تجربہ حاصل کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر ظاہر، نہ ہو تو ’’غیب‘‘ تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو تخلیق کار ظاہر کی (جو پارول بھی ہے اور فکشن بھی) قلب ماہیئت کرتا ہے۔


فرانسس کرک نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے اندر ایک خاص ’’علاقہ‘‘ بھی ہے جہاں خودمختاری کی نمود ہوتی ہے۔ ایک ایسا مقام جہاں انسان اچانک نتائج اخذ کرتا اور اپنے طورپر فیصلے کرتا ہے۔ یہ عمل علت ومعلول کے تابع ہے۔ لہٰذا جبریت (Determinism) کی صورت میں نہیں ہے۔ کیا یہی وہ مقام نہیں جہاں انسان کے ہاں تخلیقی زقند نمودار ہوتی ہے؟ یوں نظرآتا ہے جیسے انسانی دماغ میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو معرفت کے ایک کوندے سے اچانک تعارف حاصل ہوتا ہے۔


انسانی دماغ اربوں انتہائی پیچیدہ، ہمہ وقت تبدیل ہوتے اورایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے نیورونز (Neurons) کی آماجگاہ ہے۔ یہ ایک گورکھ دھندا ضرور ہے مگریہ دریدا کے گورکھ دھندے یعنی Labyrinth ایسا نہیں ہے بلکہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو نراج (Chaos) کو Orderسے آشنا کرتا ہے۔ تاہم اس آرڈر کی نمود جبھی ممکن ہے کہ نیورونز کے گورکھ دھندے کی رفتار کم ہوجائے۔ اس خاص کام کے لیے دماغ متخیلہ کو بروئے کار لاتا ہے اور فکشن تخلیق کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیقی زقند کے لیے متخیلہ اور فکشن کی دھند کا ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے دماغ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خود فریبی یا Self–Deception میں مبتلا ہے۔ صوفیا اسے ’’مکاری‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تخلیق کاری کے لیے ایک لازمی شرط ہے کیونکہ ’’آرڈر‘‘ اسی وقت دکھائی دیتا ہے جب متخیلہ نیورونز پر پردہ تان کر ان کی چکاچوند کو کم کردیتا ہے۔


خرد اور عشق میں یہی فرق ہے کہ خردایک چکاچوند ہے جو نظرآنے والی حقیقت کو بے نقاب کرکے اس کی کارکردگی یعنی Mechanism کی جانکاری حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ عشق وہ دھند ہے جو سامنے کی حقیقت پر پھیل کر اس ’’چہرے‘‘ کے خدوخال کو عریاں کرتی ہے جو چکاچوند میں دکھائی نہیں دے رہا تھا، بعینہٖ جس طرح سورج کی روشنی میں تارے غائب ہوجاتے ہیں۔ انسانی دماغ بیک وقت خرد اور عشق کے آلات سے لیس ہے۔ وہ کبھی علت و معلول سے کام لے کر اورغور وفکر کرکے حقیقت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ’’عاقل و دانا‘‘ کہلاتا ہے اورکبھی سامنے کی حقیت کو دھندلا کر اس بنت میں موجود ’’چہرے‘‘ کے خدوخال کو دیکھ پاتا ہے اور ’’عاشق یا عارف‘‘ کہلاتا ہے، تاہم بعض اوقات حقیقت کے اس چہرے کو صورت پذیر کرنے کی سعی بھی کرتا ہے اور ’’تخلیق کار‘‘ کے منصب پر فائز نظرآتا ہے۔