حق سے ہوا تھا کبھی سینۂ عالم گداز
حق سے ہوا تھا کبھی سینۂ عالم گداز
مجھ کو سنا دیجئے پھر وہ نوا ہائے راز
ذوق طلب ہے تو پھر سود و زیاں سے گزر
راہ وفا میں نہ کر فکر نشیب و فراز
آ ہی گئی تھی آج نیند سنگ در یار پر
بے خودیٔ آرزو عمر ہو تیری دراز
پھر دل بیتاب کو چاہئے سوز و گداز
مطرب آتش نفس چھیڑ چھیڑ اور اپنا راز
کہہ چکے سب حال دل بارگہۂ دوست میں
اخترؔ خاموش چھیڑ تو بھی حدیث نیاز