ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے
ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے
اندھیروں میں لپٹتا روشنی کا رنگ دیکھا ہے
سدا پہلو میں بھی مد مقابل کی طرح رہنا
کسی کی دوستی میں دشمنی کا رنگ دیکھا ہے
بڑی گہری محبت کی دھنک ہے جن نگاہوں میں
انہی میں گاہے گاہے دل لگی کا رنگ دیکھا ہے
کتابوں سے نکلتا ہے تو پہچانا نہیں جاتا
وگرنہ سامنے اکثر خوشی کا رنگ دیکھا ہے
چرا کر لے نہ جائے فاصلوں کی دھوپ بھی جس کو
کسی پر اس قدر گہرا کسی کا رنگ دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ گمراہی نشاں بنتی ہے منزل کا
تغافل کی ڈگر میں آگہی کا رنگ دیکھا ہے
شکستہ سوختہ جاں بھی تمنائے بہاراں بھی
درختوں پر خزاں میں آدمی کا رنگ دیکھا ہے
لگے جو دھوپ اڑ جائے ملے بارش تو بہہ جائے
سبھی رنگوں سے کچا زندگی کا رنگ دیکھا ہے
نہ جانے اس پہ اترے گا کبھی ٹھہراؤ کا موسم
ہر اک لحظہ بدلتا اوڑھنی کا رنگ دیکھا ہے