ہمیشہ دل ہوس انتقام پر رکھا
ہمیشہ دل ہوس انتقام پر رکھا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا
وہ بادشاہ فراق و وصال ہے اس نے
جو بار سب پہ گراں تھا غلام پر رکھا
کیے ہیں سب کو عطا اس نے عہدہ و منصب
مجھے بھی سینہ خراشی کے کام پر رکھا
کوئی سوار اٹھا ہے پس غبار فنا
قضا نے ہاتھ کلاہ و نیام پر رکھا
کسی نے بے سر و پائی کے باوجود مجھے
زمین سجدہ و ارض قیام پر رکھا