ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا

ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا
نہ ہو سب کے لیے گردش میں جام اچھا نہیں لگتا


کبھی تنہائی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کا
پیام اچھا نہیں لگتا سلام اچھا نہیں لگتا


خدا سے لو لگائیں یا خدائی سے رہے رشتہ
فقط اپنی خودی کا احترام اچھا نہیں لگتا


جبین پر شکن خاصان عالم کی نہیں بھاتی
مگر یہ بھی ہے غوغائے عوام اچھا نہیں لگتا


نہ خوشبو پیرہن کی ہے نہ زلفوں کی نہ باتوں کی
ہمیں یہ جلوۂ بالائے بام اچھا نہیں لگتا


میسر ہو تو قدرے لطف بھی نعمت ہے یاں یارو
کسی کا وعدۂ عیش دوام اچھا نہیں لگتا


یہ سستی لذتوں سستی سیاست کے پجاری ہیں
ہمیں احباب کا سودائے خام اچھا نہیں لگتا


جہاں حرکت نہیں ہوتی وہاں برکت نہیں ہوتی
سرورؔ اب وادئ گل میں قیام اچھا نہیں لگتا