ہمیں اسکول جانا ہے
یہ موسم ہے امنگوں کا ترنگوں کا زمانہ ہے
چمن کے پھول ہیں ہم کام اپنا مسکرانا ہے
قدم جو بھی اٹھانا ہے ترقی کا اٹھانا ہے
ستاروں کی طرح اک دن فلک پر جگمگانا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں خوشی کے گیت گانا ہے
ہمیں اسکول جانا ہے ہمیں اسکول جانا ہے
ملے آدھی اگر روٹی تو ہم اتنی ہی کھائیں گے
مصیبت جو پڑے سر پر خوشی سے جھیل جائیں گے
جو پڑھنا سیکھ جائیں گے تو اوروں کو پڑھائیں گے
جو رستے میں بھٹکتے ہیں انہیں منزل دکھائیں گے
محبت کا دیا ہر موڑ پر ہم کو جلانا ہے
ہمیں اسکول جانا ہے ہمیں اسکول جانا ہے
نہیں ہے علم سے بڑھ کر جہاں میں کوئی بھی دولت
یہی ہے نور آنکھوں کا دلوں کی ہے یہی راحت
یہ وہ شے ہے لگا سکتا نہیں جس کی کوئی قیمت
بغیر اس کے نہ مل پائے گی دنیا میں کوئی عزت
اٹھو جلدی اگر تعلیم کا دریا بہانا ہے
ہمیں اسکول جانا ہے ہمیں اسکول جانا ہے
جہالت کا اندھیرا عقل سے معذور کرتا ہے
جو دل کی آنکھ ہے اس کو یہی بے نور کرتا ہے
بنا دیتا ہے یہ شیطاں خدا سے دور کرتا ہے
ہمیں در در بھٹکنے کے لیے مجبور کرتا ہے
جسے تعلیم کہتے ہیں کہ وہ حکمت کا خزانہ ہے
ہمیں اسکول جانا ہے ہمیں اسکول جانا ہے