ہمیں نابود مت کرنا
اگرچہ سوت سے تکلے نے دھاگے کو نہ کھینچا تھا
مرے ریشے بنت کے مرحلے میں تھے
رگیں ماں کی دریدوں سے نہ بچھڑی تھیں
میں اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر تھا
مگر میرے عقیدے کا تعین کرنے والوں نے
مرے مسلک کے بارے میں
جو سوچا تھا اسے تجسیم کر ڈالا
میں جس دم اپنے ہونے پر اتر آیا
مجھے تقسیم کر ڈالا
کسی نے میرے ماتھے پر تلک داغا
صلیبوں کو مری چھاتی پہ کھینچا
اور کانوں میں اذاں بھر دی
پھر اس کے بعد
پیشانی پہ انگارے
صلیبیں اپنے سینے پر
سماعت پر نمیدہ زنگ کے تالے سنبھالے
میں نے ساری عمر
دنیا کے تصرف میں گزاری ہے
مری فطرت سمٹنا اور
قسمت ٹوٹ جانا ہے
میں پارہ ہوں
مجھے دنیا مسلتی ہے
نفی اثبات کی ضربیں
مجھے تقسیم کرتی ہیں
بکھرتا ہوں
مرے ذرے تھرکتے ہیں
تو کہتے ہیں
ہمیں نابود مت کرنا
کہ جب تقسیم ہونے کا عمل ممکن نہیں رہتا
تو پھر ذرہ
ذرا بھر چوٹ کھانے پر
دھماکے کو اگلتا ہے
دھماکے کو سمجھتے ہو
دھماکہ جس سے حرف کن ٹپکتا ہے
ہمیں نابود مت کرنا