ہمیں علم نہیں، لہٰذا اُردو علمی زبان نہیں
تَہ میں اُتر کر دیکھیے تو اُردو کو تہی دامنی یا تنگ دامنی کا طعنہ دینے والے اکثر وہ ہیں جن کا اپنا دامن تنگ ہے۔ اُردو کا ذخیرۂ الفاظ اُن کے دامن میں سما نہیں سکا۔ سو، اپنی تنگ دامنی کو انھوں نے اُردو ہی کی تنگ دامانی قرار دے ڈالا۔ کہتے ہیں کہ معاصر علوم کی تعلیم اُردو میں دی ہی نہیں جا سکتی۔ دلیل یہ ہے کہ اُردوکے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ جدید علوم کا احاطہ کرپائے۔ صاحبو! یہ دعویٰ کرے تو وہ کرے جسے اُردو زبان پر عبور ہونے کا بھی دعویٰ ہو۔ ماں باپ یا ماموں سے سن کر اُردو بول لینے اور لکھ لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اُردو پر عبور ہوگیا۔
ان ہلکی پھلکی شگفتہ تحریروں کا دائرہ فقط ’غلطی ہائے مضامین‘ کی نشان دہی تک محدود ہے۔ صفحے بھر کا اظہاریہ ہے۔کوشش یہی ہوتی ہے کہ بس ہزار، بارہ سو الفاظ کے محیط میں رہا جائے۔ ورنہ اُن صاحبوں کی لاعلمی کے دائرے کا قطر کچھ تو کم کرنے کی کوشش کی جاتی جو کہتے ہیں کہ اُردو علمی زبان نہیں۔ اُن کی لاعلمی کے قطر کو کم ازکم نصف قطر تو کر ہی دیا جاتا۔ مگر یہاں محققانہ انداز میں احقاقِ حق کے حُقّے کا کش لینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر اِن سطور کے قارئین میں کوئی مہندس موجود ہے تو پہچان گیا ہوگا کہ اوپر کی چند اصطلاحات (دائرہ، محیط، قطر اور نصف قطر) علمِ ہندسہ کی اصطلاحات ہیں۔ آپ ان اصطلاحات کو استعمال نہ کریں یا آپ کو ان کا علم نہ ہو تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اردو علم کی زبان نہیں، فقط انگریزی ہی علم کی زبان ہے۔
معاصر علوم اور جدید علوم سے بالعموم صرف وہی علوم مراد لیے جاتے ہیں جن کا تعلق ایجادات، اکتشافات و برقیات سے ہے۔ بلاشبہ اِن علوم میں ترقی ہوئی ہے۔ ان کی نئی نئی شاخیں نمودار ہوئی ہیں۔ ہمارا دور حیرت انگیز انکشافات کا دور ہے، مگر نیا علم بھلا کون سا ہے؟
ہر فکرِ نو کی، وہمِ کُہن ہی اساس ہے
ماضی گُندھا ہوا ہے بشر کے خمیر میں
لاعلمی کی حدیں کچھ تو کم کرنے کی کوشش کیجیے۔ علم لا محدود ہے اور زندگی محدود۔ جیسے جیسے علم بڑھتا ہے لاعلمی کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بقول جگن ناتھ آزادؔ:
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ تھی کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
مسلمانوں کے ہاں علم منقسم نہیں۔علم ایک وحدت ہے۔اسے مشرقی و مغربی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے نہ دینی و دنیاوی میں۔ اسلام میں ’دنیا‘ کی ضد ’دین‘ نہیں ہے۔ دنیا کی ضد آخرت ہے۔دُنیا کا ہر علم دین کا علم ہے، بشرطے کہ وہ اللہ کے نام سے (اقرا باسم ربک)، اللہ کے احکام کی متابعت میں اور اللہ کی رضا کے لیے ہو۔علم کو جدید و قدیم میں تقسیم کرنا بھی درست نہیں۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
علم ایک صداقت ہے۔ مسلمان ہر علم میں طاق ہوئے۔ علوم القرآن ہوں یا اس کی شاخیں، علوم الحدیث اور اس کی شاخیں، علومِ فقہ اور اس کی شاخیں، اسی طرح علومِ معاشیات (عدلِ اجتماعی)،علوم سیاسیات، علمِ ہیئت،ریاضی، الجبروالمقابلہ، علمِ مثلث، علمِ ہندسہ، شماریات، طبیعات، کیمیا،حیاتی کیمیا، حیاتیات، خُرد حیاتیات، بحری حیاتیات، حیوانیات، نباتیات،علومِ برقیات جن میںجوہری علوم بھی شامل ہیں اور ثنائی نظام جو حاسب کی ایجاد کی بنیاد بنا۔ تمام علوم عصری علوم ہیں۔ہر علم میں ہونے والی پیش قدمی اسے جدیدکر دیتی ہے۔
جس طرح آج کہا جارہا ہے کہ اُردو علم کی زبان نہیں، اسی طرح اب سے فقط پچاس برس پہلے تک کہا جارہا تھا کہ اسلام فرسودہ ’مذہب‘ ہے۔ ’محققین‘ نے قرآن کا مطالعہ کیا تو انھیں بھی ایمان لانا پڑا کہ اسلام مکمل ’دین‘ ہے۔ قرآنی آیات میں اللہ کے احکام و ہدایات کے ساتھ ساتھ انفس و آفاق میں غور و فکر کے جو نکات دیے گئے ہیں ان میں علوم البحر اور بحری حیاتیات جیسے دیگر علوم، زمین کی کشش سے نکل کر خلا میں پہنچنے کی ترکیب اور رحمِ مادر میں پرورش پاتے بچے کے ہر ہر مرحلے کی ترتیب موجود ہے۔ ’جنین‘ رحمِ مادر میں پرورش پانے والے نامولود بچے کو کہتے ہیں۔ ’جنین‘ ہی میں موروثی صفات و خصوصیات ودیعت کردی جاتی ہیں۔ ’وراثہ‘ کے علم کو ’علمِ جینیات‘ کہتے ہیں، جسے آج کی دنیا ’جدید ترین علم‘ سمجھ رہی ہے۔ علمی پیش قدمی کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے یہ علم سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
فی زمانِنا صرف علومِ طبیعی کوعلم سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ موجودہ مادّی ترقی اور خوشحالی بیش تر علومِ طبیعات کی مرہونِ منت ہے۔ مادّی چکاچوند ہی کو انسانیت کی معراج، تہذیب کا ارتقا اور مطلوب و مقصود سمجھ لیا گیا ہے۔ سیرت و کردار اور اخلاق کے معاملات میں آج کا انسان وحشی جانوروں سے بھی اسفل معیارِ زندگی اختیار کرلینے کو ترقی سمجھ رہا ہے۔ درندگی سے نفسی امراض میں بھی ترقی ہورہی ہے۔
اپنے مستقل عنوان کا حق حلال کرنے کو، یہاں وضاحت کرتے چلیں کہ ’فی زمانِنا‘ کا مطلب ہے: ’ہمارے زمانے میں‘۔ جب کہ ’فی زمانہ‘ کا مطلب صرف: ’زمانے میں‘ ہے۔ جیسے فی صد کا مطلب سَو میں، فی ہزار کا مطلب ہزار میں، اور ’فی بطنِ شاعر‘ کا مطلب ہے: ’شاعر کے پیٹ میں‘۔ لہٰذا اگر صرف ’فی زمانہ‘ کہا جائے تو اس سے ’ہمارے زمانے میں‘ کہنے کا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
چوں کہ صرف علوم طبیعی کو ’علم‘ سمجھا جارہا ہے، نیز سمجھایا جارہا ہے کہ اُردو اِن علوم کی زبان نہیں بن سکتی یا نہیں بن سکی، چناں چہ یہ چند سطریںصرف نمونے کے طور پر پیش کی جارہی ہیں۔ ذرا انگریزی کرکے پہچانیے تو سہی کہ یہ کس علم کا ذکر ہے:
’’نور افشاں اجسام میں سے تین قسم کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں الف، ب، ج۔ شعاع ’الف‘ مثبت شعاعوں کے مشابہ ہے۔ شعاع ’ب‘ منفی برقیے ہیں۔ اور شعاع ’ج‘ غیر شفاف واسطوں میں سے گزر جاتی ہے۔ ’ب‘ شعاعوں کی رفتار منفی شعاعوں سے بھی زیادہ ہے، یعنی ان کی رفتار تیس سے ننانوے فیصدی رفتارِ نور تک ہے۔ ’الف‘ شعاعوں کی کمیت دریافت کی گئی اور ان پر دیگر تجربات کیے گئے تو ثابت ہوا کہ یہ ہیلیم کے جوہر ہیں۔ نور افشانی میں عناصر کی قلب ماہیت ہوتی ہے۔ کیمیائی جوہر کا قلب، مثبت برقی اثر سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کے گرد منفی برقیے اس طرح گردش کرتے ہیں جیسے آفتاب کے گرد ستارے‘‘۔
معترضین کے اعتراضات رفع کرنے کی کوشش، پلڑوں والے ترازو میں مینڈکوں کی پنسیری تولنے کی کوشش ہے۔ ایک کا تصفیہ کیجیے تو دوسرا پُھدک جاتا ہے۔ ’’چلیے مان لیا کہ اردو علم کی زبان ہے مگر…‘‘ اس ’مگر‘ کے بعد کئی کاہل مگرمچھ بہتے چشمے کے بہاؤ کی راہ میں لاکر ڈال دیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کام کو کرنے کی خواہش اور ارادہ ہو تو ہر اعتراض رفع ہوتا چلا جاتا ہے۔
آخر میں قارئین کو دعوے کے ساتھ دعوت دی جاتی ہے کہ اس تحریر کو ایک بار پھر شروع سے آخر تک دیکھیے اور ذرا گن کر بتائیے کہ ہزار بارہ سو الفاظ پر مشتمل اس تحریرمیں انگریزی کے کتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی کی مدد کے بغیر آپ اردو کا ’ایک فقرہ‘ بھی لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔