ہماری پولیس کے نظام میں مسائل
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو عوام اور پولیس کے مابین ایک خلیج نظر آتی ہے۔ عوام پولیس کو ایک استبدادی قوت تصور کرتی ہے اور اس سے خوف زدہ رہتی ہے۔ کبھی اس قوت سے بچ نکلنے ، اس کو دھوکا دینے یا کسی بھی طرح اس سے مقابلہ کرنے میں کامیابی ہو جائے تو خود کو فاتح سا محسوس کرتی ہے جس نے مخالف پر یا تو قابو پا لیا ہو یا کم از کم اس کی آنکھوں میں دھول ضرور جھونک دی ہو۔ حالانکہ پولیس تو عوام کی فلاح کے لیے ایک ادارہ جس کا کام امن و امان برقرار رکھنا، قانون کی بالادستی یقینی بنانا اور عوامی مسائل حل کرنا ہے۔
بہر حال اصولی طور پر پولیس کی ذمہ داریاں کچھ بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی پولیس عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے صرف عوام کو دبانے اور ریاستی رٹ قائم کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ایک آلہ ہے۔ تمام دانشور، سیاست دان، سماجی کارکن، تاریخ دان، حتیٰ کہ پولیس کے اپنے افسران متفق ہیں کہ اس کی وجہ پولیس کی رگوں میں دوڑنے والا وہ استبدادی خون ہے جس کے تانے بانے ہندوستان میں برطانوی راج سے ملتے ہیں۔ موجودہ پولیس کے نظام کا شجرہ 1861 میں منظور کیے جانے والے پولیس ایکٹ سے ملتا ہے جس کے تحت موجودہ پولیس کا نظام تشکیل دیا گیا۔ پنجاب پولیس کے سابق آئ جی ڈاکٹر شعیب سڈل اس ایکٹ کے ذریعے تشکیل دیے گئے پولیس کے نظام کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نظام کو آئرش کنسٹبلری کے ماڈل پر تشکیل دیا گیا۔اس ماڈل کے مطابق پولیس کو لوگوں کے لیے خدمت گزار نہیں بلکہ ایک ایسی قوت ہونا تھا جو عوام کو بھرپور قابو کر کے استعماری حکومت کے نظام کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ جب اس پولیس کو تشکیل دیا گیا تو اس میں نیم خواندہ، نیم تربیت یافتہ، کم معاوضے پر فوج سے لوگ بھرتی کیے گئے نہ کہ عوام سے۔ پولیس کے اہلکاروں کو عوام سے دور بیرکوں میں رکھا جاتا تھا تاکہ ان کے دلوں میں عوام کے لیے ہمدردی نہ پنپنے پائے۔ ان اہلکاروں کے ذمے تین ذمہ داریاں ہوتی تھیں۔
1۔ ہر قسم کی بغاوتوں کو سختی سے کچلیں۔
2اپنے سے اوپر افسران کی غیر مشروط، بلا قاعدہ قانون وفاداری۔
3۔ لگان اور دیگر ریونیو کلیکشن میں افسران کی امداد۔
اس تمام نظام کو آئرش کنسٹیبلری کے ماڈل پر ترتیب دیا گیا۔ آئرش کنسٹبلری آئرلینڈ میں نافذ شدہ پولیس نظام تھا جو کہ انگریزی سامراج نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے آئرلینڈ میں قائم کیا تھا۔ اس کو برصغیر میں سب سے پہلے لارڈ نیپیر نے سندھ میں نافذ کیا تھا۔
آئرلینڈ اور آئرش کنسٹیبلری:
موجودہ یو کے چار جغرافیائی اکائیوں انگلستان، سکا لینڈ، ویلز اور جنوبی ائرلینڈ کا مجموعہ ہے۔ کبھی اس مجموعے میں پورا آئرلینڈ شامل ہوتا تھا۔ لیکن 1922 میں آئرلینڈ کے دو ٹکڑے ہوئے اور آئرلینڈ کا جزیرہ جنوبی آئرلینڈ اور ریپبلک آف آئرلینڈ میں تقسیم ہوگیا۔ جنوبی آئرلینڈ تو برطانوی سامراج کے ساتھ ہی رہا لیکن باقی آئرلینڈ نے کافی جدو جہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ در اصل برسوں پہلے انگلستان کے بادشاہ نے آئرلینڈ پر حملہ کیا اور اسے اپنا باج گزار بنا لیاتھا۔ 1801 میں انگلستان نے یونین ایکٹ کا نفاذ کیا اور آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کو مکمل طور پر ختم کر کے اسے انگلستان کی پارلیمنٹ میں ضم کر لیاتھا۔ انگلستان کی اس حقدام پر آئرلینڈ میں شدید ردعمل آیا اور جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے اور مکمل طور پر آئرلینڈ میں انگریزی سامراج کی رٹ قائم کرنے کے لیے مکمل مرکزی اختیار کی حامل ایک پولیس فورس تشکیل دی گئی۔ اس پولیس کو عوامی مینڈیٹ کی بجائے قابض سامراج کا مینڈیٹ حاصل تھا جس کا کام عوام کو دبانا اور سرکاری احکامات کی بجا آوری تھا۔ اس پولیس کو دو ایکٹس آئرش کنسٹبلری ایکٹ 1822 اور 1833 کے ذریعے تشکیل دیا گیا۔ اس پولیس میں اہلکار اپنے افسران کو جواب دہ تھے نہ کہ عوام یا قانون کو۔ اس کی قیادت سب سے نیچے کانسٹیبل، جس پر چیف کانسٹیبل ، جس پر انسپیکٹر جنرل اور پھر سیکرٹری تعینات ہوتے تھے۔ اس میں ہر افسر اپنے اوپر والے افسر کو جواب دہ تھا نہ کہ قانون کو۔ اہلکار عوام میں بہت ہی غیر مقبول ہوتے تھے اور عوام انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ لیکن وہ سامراج کے احکامات کی بجاآوری میں کامیاب رہتے تھے جس بنا پر اسے برطانوی سامراج کے لیے کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ان اہداف میں عوام کو دبانا اور ہر قسم کی بغاوتیں کچلنا تھا۔
آئرش کنسٹبلری اور 1861 پولیس ایکٹ:
ہندوستان میں آئرش کنسٹبلری کے ماڈل پر پولیس کا نظام لارڈ نیپیر نے سندھ میں 1841 سے 1844 کے درمیان نافذ کیا۔ 1857 میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اسے پورے ہندوستان میں نافذ کرنے کا فیصلہ ہوا اور 1861 میں انڈین پولیس ایکٹ متعارف کروا کر نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے پولیس کو ڈسٹریکٹ آفیسر کے نیچے رہ کر کام کرنا ہوتا اور اس کے احکامات کی بجاآوری اس کی ذمہ داری ہوتی۔ انگریز برصغیر میں جو لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے تھے اس میں اہم کردار یہی پولیس ادا کرتی تھی۔ دراصل جو ریونیو انگریز حکومت غریب عوام سے چھینتی تھی، پولیس اس عمل میں حکومت کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ ڈسٹرکٹ آفیسر مجسٹریٹ کے طور پر بھی کام کرتا اور امن و امان سے متعلق جرائم کا فیصلہ کرتا۔ ایگزیٹو اور جوڈیشل پاورز کا یہ اختلاط بہت سے مسائل جنم دیتا لیکن عوام کو دبانے اور پولیس کو بھی قابو میں رکھنے میں بے حد کارآمد تھا۔ کیونکہ جس ڈسٹرکٹ آفیسر نے احکامات دینا ہوتے وہی مجسٹریٹ بھی ہوتا اور اپنے ہی خلاف شکایات کا فیصلہ بھی کرتا۔ اس طرح ڈسٹریکٹ آفیسر جج، ملزم اور جلاد خود ہی ہوتا اور ہندوستان میں ایک لحاظ سے نہ وکیل، نہ دلیل اور نہ اپیل کا نظام قائم تھا۔ اس ماڈل کو خود برطانیہ سے کئی لوگوں نے ہدف تنقید بنایا لیکن چونکہ اس سے عوام کو دبانے کا مقصد بخوبی پورا ہو رہا تھا، لہٰذا اسے قائم رکھا گیا۔ 1861 کا قائم کردہ نہ صرف 1947 میں پاکستان نے وراثت میں لیا بلکہ اسے آج تک تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام اور پولیس کے درمیان وہ فاصلہ برقرار ہے جس کے لیے یہ نظام متعارف کروایا گیا تھا۔ 2002 میں پولیس ایکٹ پرویز مشرف کی جانب سے متعارف کروایا گیا لیکن وہ بھی سوائے اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ، کسی صوبے میں نافذ نہ ہو سکا۔ اور یہی وجہ ہے کہ پولیس آج بھی ہمارا ایک کمزور ادارہ ہے۔
یہاں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ برطانوی سامراج کے پاس اس وقت بھی عوامی خدمت پر مبنی پولیس کا نظام تھا جو کہ لندن اور اسے علاقوں میں نافذ تھا جہاں شہریوں کی فلاح و بہبود مطلوب تھی۔ چونکہ برصغیر کے لوگوں کو دبا کر رکھنا مقصود تھا اس لیے یہاں جان بوجھ کر ایسا نظام دیا گیا جس سے لوگوں کی فلاح نہ ہو۔ ورنہ جہاں 1822/1833 میں آئرش کانسٹیبلری ایکٹ کے ذریعے ایک استبدادی پولیس تشکیل دی گئی، وہیں 1822 میں لندن پولیس ایکٹ کے ذریعے عوامی خدمت گار پولیس بھی تشکیل دی گئی تھی۔
حاصل کلام:
ہمارے ہاں پولیس کے نظام کی بنیاد کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ذہنیت آج بھی پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے جس کے تحت پولیس کا قیام ہوا۔ اسی طرح عوام کے اجتماعی ذہن پر بھی پولیس کے خلاف رد عمل کی نفسیات، اس سے مقابلہ کرنے کی نفسیات، اسے اپنا دشمن سمجھنے اور خوف زدہ رکھنے کی نفسیات پوری طرح نافذ العمل ہیں ۔ یہی دو مخالف قوتیں ہیں جس کے تحت جب بھی پولیس اور عوام آمنے سامنے آتے ہیں تو ہمیں ایسے دل خراش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو دونوں طرف ہمارے ہی لوگ ہوتے ہیں، دونوں اطراف سے کوئی بھی زخمی یا ہلاک ہو صف ماتم ہمارے ہی گھروں میں بچھتی ہے۔
یہ سب چیزیں روز روشن کی طرح اس بات کو عیاں کر دیتی ہیں کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے ہم پر واجب ہے کہ ہم ماضی کے بوجھ سے آزاد ہو کر، آزاد ریاستی اداروں کی بنیاد رکھیں جو ہماری فلاح میں کار آمد ہوں، ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کارآمد ہوں۔