ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی
ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی
مگر یہ دل ہے ابھی مانتا نہیں کچھ بھی
ہم اس کے غم کو ان آنکھوں میں لے کے پھرتے ہیں
مگر وہ شخص ہمیں جانتا نہیں کچھ بھی
یہ کیسی دھول سی راہوں میں اڑتی پھرتی ہے
تو اے مسافر جاں کیا بچا نہیں کچھ بھی
ہم اپنے اپنے دل و جاں کی خیر مانگتے ہیں
یہ عجز کچھ بھی نہیں ہے انا نہیں کچھ بھی
بس ایک منظر خالی میں اونگھ لیتا ہوں
وہ خوش نظر ہے مگر دیکھتا نہیں کچھ بھی
تو بول اٹھتا ہے ہم کو بھلا بھی لگتا ہے
مگر تو یار مرے سوچتا نہیں کچھ بھی
کہیں پہ ہو کہ نہ ہو عزت گنہگاراں
مگر یہاں کوئی تیرے سوا نہیں کچھ بھی
گماں تو خیر محبت کا تھا پر اب اس سے
بہ سوئے رنج طلب واسطہ نہیں کچھ بھی
ہمارے حال پہ تم کو ملال تک بھی نہیں
تو کیا جو ربط ہمارا تھا، تھا نہیں کچھ بھی
کبھی جو آؤ تو ہم کو جو تم سے کہنی ہے
یوں ہی سی بات ہے اب مدعا نہیں کچھ بھی