ہمارا ہو کے بھی کب اپنے بس میں رہتا ہے

ہمارا ہو کے بھی کب اپنے بس میں رہتا ہے
یہ دل ہمیشہ تری دسترس میں رہتا ہے


اسے شرابی نہ سمجھو کہ صبح ہوتے ہی
وہ مندروں کے سنہرے کلس میں رہتا ہے


ہے اعتبار سے بے اعتبار سرحد تک
وہ فاصلہ جو مرے ہم نفس میں رہتا ہے


تمنا یہ ہے کہ کچھ لمحے دل کے نام کریں
مگر دماغ کہ حرص و ہوس میں رہتا ہے


ہم اپنے گھر میں بھی کچھ اس طرح سے رہتے ہیں
کہ جیسے کوئی پرندہ قفس میں رہتا ہے


تلاش کرتی ہے دنیا جسے بہ نام ضمیرؔ
وہ نغمہ بن کے صدائے جرس میں رہتا ہے