ہم ان کی نظر میں سمانے لگے
ہم ان کی نظر میں سمانے لگے
مگر جب نظر بھی نہ آنے لگے
یہ تیری سخن سازیاں ہیں ندیم
کسی پر وہ کیوں رحم کھانے لگے
نہ دی غیر نے داد طرز ستم
ستم گر کو ہم یاد آنے لگے
نہ دانش درست اور بینش بجا
دل و دیدہ دونوں ٹھکانے لگے
گیا تھا کہ ان کی خوشامد کروں
وہ الٹا مجھی کو بنانے لگے
کبھی خیر مقدم کبھی مرحبا
زباں پر یہ الفاظ لانے لگے
کبھی میرے قربان ہوتے رہی
کبھی مجھ کو پنکھا ہلانے لگے
کبھی لیٹ کر پاؤں پھیلا دیئے
کبھی دیکھ کر مسکرانے لگے
کیا میں نے جب عزم بوس و کنار
تو اٹھ بیٹھے اور منہ چڑھانے لگے
کہیں پھر دوپٹا سنبھلنے لگا
کہیں آدمی کو بلانے لگے
خدایا کیا کس نے ان پر ستم
الٰہی یہ کیوں غل مچانے لگے
وہ دم میں کب آتے تھے دیتے تھے دم
کہ سمجھوں مرے دم میں آنے لگے
وہ محفل میں آئیں تو ناظمؔ ضرور
مغنی یہ اشعار گانے لگے