ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں
ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔ کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے ہجر سے پہلے ‘‘ وغیرہ ۔انہوں نے ایک شعر جس میں ’سفر ‘ کا قافیہ باندھا تھا ، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ’’ کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون تھوکنے لگے ۔‘‘ مرزا داغ یہ سن کر مسکرائے اور بولے کہ’’ ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں۔‘‘ اس جملہ پر حاضرین میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی اور کنتوری صاحب خفیف ہوکر رہ گئے ۔