ہم نشینوں میں ہمارا ہم نوا کوئی نہیں
ہم نشینوں میں ہمارا ہم نوا کوئی نہیں
آشنا تو ہیں بہت درد آشنا کوئی نہیں
اے مسیحا موت سے کر زندگانی کا علاج
ہو رہے وہ غیر کے اب آسرا کوئی نہیں
بت کدے سے چھوٹ کر ایسا ہوئے بے خانماں
جیسے زیر آسماں میرا خدا کوئی نہیں
خود نمائی میں بھی وہ محبوب ہے مستور ہے
دیکھتے ہیں سب مگر پہچانتا کوئی نہیں
برش تیغ ادائے دوست کا احساس ہے
اب رہین منت تیر قضا کوئی نہیں
ہے تری مشق ستم کا رنگ اگر یوں ہی تو پھر
دیکھا لینا ایک دن تیرے سوا کوئی نہیں
پوچھتے ہیں مدعا مجھ سے عدو کے سامنے
مدعا یہ ہے کہ کہہ دوں مدعا کوئی نہیں
با وفا اتنی جفا پر کون ہے میرے سوا
تجھ سے بڑھ کر بد گماں اے بے وفا کوئی نہیں
بڑھ گیا ہے آج کل جور بتاں کچھ اس قدر
دست گیر بندگاں گویا خدا کوئی نہیں
لے کے بار زندگی کب تک کوئی پھرتا رہے
راہزن ہی لوٹ لے جب رہنما کوئی نہیں
جان کر بیخودؔ ہوا خود دشمن اپنی جان کا
پھر گلا کیوں دوستوں سے ہے مرا کوئی نہیں