ہم نہیں ملتے نہیں ملتے ہیں ہم شام کے بعد

ہم نہیں ملتے نہیں ملتے ہیں ہم شام کے بعد
پھر بھی آ جاتے ہیں کچھ اہل کرم شام کے بعد


دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے ستم شام کے بعد
بڑھتا جاتا ہے مرا کوہ الم شام کے بعد


جانے لگ جاتے ہیں سب سوئے حرم شام کے بعد
اور وہاں پھر سے وہی جھوٹی قسم شام کے بعد


اپنی یادوں سے غم شام کی چھٹی رکھیں
ہونے لگ جاتی ہے آنکھ اور بھی نم شام کے بعد


بیوی بچوں کی ہنسی اصل کمائی ہے مری
بس یہی بچتی ہے لے دے کے رقم شام کے بعد


میکدہ سارے مسائل کو مٹا دیتا ہے
مسئلہ دیں کا وہاں ہے نہ دھرم شام کے بعد


دن میں تو خوب ستائش کی سند ملتی ہے
کھلتے جاتے ہیں مرے سارے بھرم شام کے بعد


وہ جو جاتا ہے تو مجھ کو بھی لئے جاتا ہے
ہائے ہو جاتا ہوں میں اور بھی کم شام کے بعد


آج کیا لینا ہے کیا کھانا ہے عبدالقادرؔ
سر اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں یہ غم شام کے بعد