ہم کو ہوس جلوہ گاہ طور نہیں ہے

ہم کو ہوس جلوہ گاہ طور نہیں ہے
اس حسن کی کیا قدر جو مستور نہیں ہے


افسانۂ مجنوں سے نہیں کم مرا قصہ
اس بات کو جانے دو کہ مشہور نہیں ہے


کعبے کو چلے جائیں در دوست سے اٹھ کر
پر اس کا ستانا ہمیں منظور نہیں ہے


وہ میری عیادت کو ضرور آئیں گی ہمدم
کہتے ہیں کہ مکار ہے رنجور نہیں ہے


کھلنے سے بھلا اس کے دکھے کیوں دل بلبل
ہے غنچۂ گل زخم کا انگور نہیں ہے


دعوت سے مسخر ہو نہ طاعت سے میسر
ہوں جس پہ فدا وہ پری و حور نہیں ہے


مشرک کہے عاشق کو جو لے نام خدا کا
سچ کہتے ہو اس شوخ سے کچھ دور نہیں ہے


ہو رات تو جیتے رہیں امید سحر پر
یہ روز سیہ ہی شب دیجور نہیں ہے


ناظمؔ میں پڑھاتا اسے غالبؔ کے قصائد
افسوس کہ خاقانیٔؔ مغفور نہیں ہے