ہم کسی کی بھی کبھی آنکھ کے تارے نہ ہوئے
ہم کسی کی بھی کبھی آنکھ کے تارے نہ ہوئے
جن کو چاہا تھا بہت وہ بھی ہمارے نہ ہوئے
ڈوبتے ناؤ کو دیکھیں مری جن کو تھی یہ فکر
ہائے افسوس وہ دریا کے کنارے نہ ہوئے
جو نکو کار تھے دنیا سے وہ اٹھتے ہی گئے
تھے جو بد کار وہ اللہ کو پیارے نہ ہوئے
کون سی صبح وہ بن کر نہ لب بام آئی
کون سی شام کو کھڑکی سے اشارے نہ ہوئے
یہ محبت تو نہیں یہ ہے محبت کا فریب
ہم تمہارے نہ ہوئے تم بھی ہمارے نہ ہوئے
آتش دل کا بھی کچھ سوز نہاں تھا اس میں
میرے اشکوں کے مقابل تو شرارے نہ ہوئے
سوزؔ کو یاد تو گزرے ہوئے دن کم ہیں مگر
محو دل سے جو ترے ساتھ گزارے نہ ہوئے