ہم برق و شرر کو کبھی خاطر میں نہ لائے
ہم برق و شرر کو کبھی خاطر میں نہ لائے
اس فتنۂ دوراں کو مگر دیکھ نہ پائے
گو قطرے میں دریاؤں کا طوفان سمائے
پر شوق کی روداد کب الفاظ میں آئے
زلفوں کو دیا ہے رخ زیبا نے عجب رنگ
جلووں سے ترے اور بھی روشن ہوئے سائے
یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیزیں ہیں یعنی
جو آگ لگائے وہی خود آگ بجھائے
ڈھلتی ہے وہ مے اک ترے پیمانے میں ساقی
مستی کو بھی جو ہوش کے آداب سکھائے
تیری ہی نگاہوں کا تصرف تھا کہ ہم نے
رعنائی افکار کے اعجاز دکھائے
جس دل پہ کسی کی نگہ لطف پڑی تھی
بیٹھے ہیں سرورؔ اس کو کلیجے سے لگائے