ہم باد صبا لے کے جب گھر سے نکلتے تھے

ہم باد صبا لے کے جب گھر سے نکلتے تھے
ہر راہ میں رکتے تھے ہر در پہ ٹھہرتے تھے


ویرانہ کوئی ہم سے دیکھا نہیں جاتا تھا
دیوار اٹھاتے تھے دروازے بدلتے تھے


آوارہ سے ہم لڑکے راتوں کو پھرا کرتے
ہم سرو چراغاں تھے چوراہوں پہ جلتے تھے


یہ خاک جہاں ان کے قدموں سے لپٹ جاتی
جو راہ کے کانٹوں کو چنتے ہوئے چلتے تھے


اک شام سر محفل ہم نے بھی اسے دیکھا
یہ سچ ہے ان آنکھوں میں مے خانے مچلتے تھے