ہم عجب سلسلۂ سیر و سفر رکھتے ہیں
ہم عجب سلسلۂ سیر و سفر رکھتے ہیں
ہر قدم ایک نئی راہ گزر رکھتے ہیں
زد پہ طوفان کے کاغذ کا نگر رکھتے ہیں
لاکھ سیلاب حوادث ہو مگر رکھتے ہیں
اس کے با وصف کہ ہر سمت اندھیرا ہے محیط
ہم ہیں وہ لوگ جو امید سحر رکھتے ہیں
تیری باتیں تری یادیں ترے رنگین خطوط
اپنے ہم راہ یہی زاد سفر رکھتے ہیں
ہم خطا وار زمانہ ہیں فرشتے تو نہیں
ہیں زیاں کار کہ اوصاف بشر رکھتے ہیں
دل کے جزدان میں اک نام سجا ہے ناصرؔ
ہم کسی حال میں ہوں اس کی خبر رکھتے ہیں