ہم ایسے سرپھرے دنیا کو کب درکار ہوتے ہیں
ہم ایسے سرپھرے دنیا کو کب درکار ہوتے ہیں
اگر ہوتے بھی ہیں بے انتہا دشوار ہوتے ہیں
خموشی کہہ رہی ہے اب یہ دو آبا رواں ہوگا
ہوا چپ ہو تو بارش کے شدید آثار ہوتے ہیں
ذرا سی بات ہے اس کا تماشا کیا بنائیں ہم
ارادے ٹوٹتے ہیں حوصلے مسمار ہوتے ہیں
شکایت زندگی سے کیوں کریں ہم خود ہی تھم جائیں
جو کم رفتار ہوتے ہیں وہ کم رفتار ہوتے ہیں
گلے میں زندگی کے ریسمان وقت ہے تو کیا
پرندے قید میں ہوں تو بہت ہوشیار ہوتے ہیں
جہاں والے مقید ہیں ابھی تک عہد طفلی میں
یہاں اب بھی کھلونے رونق بازار ہوتے ہیں
گلوئے خشک ان کو بھیجتا ہے دے کے مشکیزہ
کچھ آنسو تشنہ کاموں کے علمبردار ہوتے ہیں
بدن ان کو کبھی باہر نکلنے ہی نہیں دیتا
قمر عباسؔ تو باقاعدہ تیار ہوتے ہیں