ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں


کبھی چھپے ہوئے خنجر کبھی کھنچی ہوئی تیغ
سپاہ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں


وہ جن کی دستخطیں محضر ستم پہ ہیں ثبت
ہر اس ادیب ہر اس بے ادب سے واقف ہیں


یہ رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شب غم کے سبب سے واقف ہیں


نظر میں رکھتے ہیں عصر بلند بامیٔ مہر
فرات جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں


کوئی نئی تو نہیں حرف حق کی تنہائی
جو جانتے ہیں وہ اس امر رب سے واقف ہیں