ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے
ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے
شہر ہوتے بھی تو آواز کے زنداں ہوتے
زندگی تیرے تقاضے اگر آساں ہوتے
کتنے آباد جزیرے ہیں کہ ویراں ہوتے
تو نے دیکھا ہی نہیں پیار سے ذروں کی طرف
آنکھ ہوتی تو ستارے بھی نمایاں ہوتے
آرزوؤں سے جو پیمان وفا ہم رکھتے
سانحے زخم بھی ہوتے تو گلستاں ہوتے
عشق ہی شعلۂ امکان سحر ہے ورنہ
خواب تعبیر سے پہلے ہی پریشاں ہوتے
ماضی و دوش کا ہر داغ ہے فردا کا چراغ
کاش یہ شام و سحر صرف دل و جاں ہوتے
ضبط طوفاں کی طبیعت ہی کا اک رخ ہے ضمیرؔ
موج آواز بدل لیتی ہے طوفاں ہوتے