ہم اب کیا بتائیں کہاں تک گئے

ہم اب کیا بتائیں کہاں تک گئے
گماں کے مسافر گماں تک گئے


حصار جہاں تک ہے دشت انا
دکھا بس یہ منظر جہاں تک گئے


نہ جذبات سے یہ سفر طے ہوا
نہ دل سے کبھی یہ زباں تک گئے


کہ حاصل یہی موسموں کا رہا
بہاروں کے پتے خزاں تک گئے


مسافت کسی کی یہیں تک رہی
مکاں سے چلے تو دکاں تک گئے


بتاؤ قضا پر کریں اور کیا
عزا سے بڑھیں تو فغاں تک گئے


جنہیں آگہی میں ملا آسرا
نہ پھر وہ کسی بھی اماں تک گئے


یوں ہی بار ہستی اٹھائے پھریں
ہوئے خاک تو آسماں تک گئے